النصير
كلمة (النصير) في اللغة (فعيل) بمعنى (فاعل) أي الناصر، ومعناه العون...
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ: فلان بن فلان نے كہا: اے اللہ کے رسول! یہ بتائیں کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو زنا کرتا ہوا پا لےتو اسے کیا کرنا چاہیے؟ اگر وہ کچھ بولے گا تو اس کا بولنا بہت بڑی بات ہو گی اور اگر چپ رہے گا تو اتنی ہی بری بات پر خاموش رہے گا؟ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہ دیا۔ بعد ازاں وہ شخص دوبارہ آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے جو بات آپ سے پوچھی تھی میں خود اس میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ اس پر اللہ عز و جل نے سورۂ نور کی یہ آیات نازل فرمائیں: (وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُم...الخ (النور: 6)۔ ’’جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں۔‘‘ آپ ﷺ نے یہ آیات اس کے سامنے تلاوت فرمائی اور اسے وعظ و نصیحت کیا اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ (اس لیے اگر تم نے جھوٹ بولا ہے تو تسلیم کرلو اور تہمت کی سزا برداشت کر لو)۔ لیکن اس نے جواب دیا کہ: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں نے اس پر بہتان نہیں لگایا۔ پھر آپ ﷺ نے اس عورت کو بلایا اور اسے نصیحت کی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ وہ کہنے لگی: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! یہ شخص جھوٹا ہے۔ آپ ﷺ نے مرد سے شروع کیا اور اس نے اللہ کی قسم اٹھا کر چار دفعہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں دفعہ اس نے کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس کے بعد آپ ﷺ عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے بھی چار دفعہ اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے گواہی دی کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں دفعہ اس نے کہا کہ اگر وہ سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب ہو۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ان دونوں کے مابین جدائی کرا دی۔ پھرفرمایا: اللہ تعالی جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرنا چاہتا ہے؟‘‘ - آپ ﷺ نے ایسا تین دفعہ فرمایا -۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’تمہارا اب اس عورت پر کوئی اختیار نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میرا مال؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا کوئی مال نہیں۔ اگر تم اس کے معاملہ میں سچے ہو تو وه تمہارے اس کی شرم گاہ کو حلال کرنے کے بدلے ميں ہے اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے تو وہ (مال) تمہارے ليے اس عورت سے اور بھی زيادہ دور ہے۔‘‘
اسلام نے لعان کو ایک معاشرتی مسئلے کا حل پیش کرنے کے لیے مشروع کیا ہے، اور وه مسئلہ یہ ہے کہ اگر شوہر كسی کو دیکھےكہ اس کی بیوی کے ساتھ زنا کر رہا ہے اور اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو وہ لعان کا سہارا لے گا۔ لیکن محض شک اور وسوسے کی صورت میں وہ ایسا نہیں کرے گا، بلکہ ایسا اس وقت ہوگا جب وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ اس لیے کہ لعان کے بارے میں بڑی وعید آئی ہے۔ جس شخص کا یہ قصہ ہے اسے گویا اپنی بیوی کی حالت مشکوک ومشتبہ محسوس ہوئی اور اسے اندیشہ لاحق ہوا کہ اس سے بدکاری کا ارتکاب نہ ہو جائے۔ چنانچہ وہ اپنے معاملے میں تذبذب کا شکار ہوگیا۔ کیونکہ اس پر تہمت لگانے کی صورت میں اگر وہ گواہ نہ لا سکا تو اس پر حد لاگو ہوتی اور اگر چپ رہتا تو یہ دیوثیت اور باعث عار بات تھی۔ چنانچہ اس نے اپنے ان خیالات کا اظہار نبی ﷺ کے سامنے کیا۔ آپ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ آپ ﷺ کو یہ ناپسند تھا کہ کسی شے کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اس کے بارے میں پوچھا جائے اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ یہ برائی میں جلدی کرنے اور اس کی ابتداء کرنے کی قبیل سے تھا اور مزید یہ کہ نبی ﷺ پر اس معاملے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ بعدازاں اس سائل کو اپنی بیوی سے جس زنا کا اندیشہ تھا اسے اس نے دیکھ لیا تو اس کے حکم اور اس کی بیوی کے حکم کے بارے میں اللہ تعالی نے سورۂ نور کی یہ آیات نازل فرمائی: ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أزواجهم﴾ (النور: 60)۔ نبی ﷺ نے ان آیات کو اس شخص پر تلاوت فرمائی اور اسے وعظ و نصیحت کی کہ اگر وہ اپنی بیوی پر تہمت لگانے میں جھوٹا ہے تو جان لے کہ دنیا کا عذاب - جو کہ حدِ قذف ہے -، آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ اس شخص نے قسم اٹھائی کہ اس نے اپنی بیوی پر زنا کا جھوٹا الزام نہیں لگایا۔ پھر آپ ﷺ نے اس کی بیوی کو بھی نصیحت فرمائی اور اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب - جو کہ حدِ زنا یعنی رجم ہے - وہ آخرت کےعذاب سے ہلکا ہے۔ اس نے بھی قسم اٹھائی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے دونوں میں سے اس سے ابتدا کی جس سے اللہ نے ابتدا کی ہے یعنی شوہر سے۔ چنانچہ اس نے چار دفعہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ اس نے اس عورت پر جو الزام لگایا ہے اس میں وہ سچا ہے اور پانچویں بار میں اس نے کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر آپ ﷺ عورت کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس نے بھی چار دفعہ اللہ کی قسم اٹھا کر گواہی دی کہ وہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں بار میں اس نے کہا کہ اگروہ اپنے دعوے میں سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ان دونوں کے مابین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدائی کرا دی۔ چوں کہ ان میں سے ایک جھوٹا تھا اس لیے نبی ﷺ نے انہیں توبہ کرنے کی پیش کش کی۔ شوہر نے اپنا حق مہر طلب کیا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: تمہیں حق مہر واپس نہیں ملے گا۔ اگر تم اپنے اس دعوی میں سچے ہو کہ اس عورت نے زنا کیا ہے تو یہ حق مہر تمہارا اس کی شرم گاہ کو حلال کرنے کے عوض ہو جائے گا کیونکہ وطی سے حق مہر ثابت ہو جاتا ہے۔ اور اگر تم نے اس پر جھوٹا الزام دھرا ہے تو پھر حق مہر تمہاری دسترس سے اس عورت سے اور بھی زیادہ دور ہے کیونکہ تم نے اس پر یہ بہتان عظیم لگایا ہے۔