المقيت
كلمة (المُقيت) في اللغة اسم فاعل من الفعل (أقاتَ) ومضارعه...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ’’بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے امر (حکم) حاصل نہ کرلیا جائے۔ اور کنواری لڑکی کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لے لی جائے۔ صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ: اے اللہ کے رسول! اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی اجازت یہ ہے کہ وہ (اجازت طلب کرنے پر) خاموشی اختیار کرے۔‘‘
عقد نکاح کی بہت زیادہ اہمیت ہے جس کی وجہ سے شوہر کے لئے وہ شے حلال ہو جاتی ہے جس کی عورت سب سے زیادہ حفاظت کرتی ہے یعنی اس کی شرم گاہ۔ اس عقد کی وجہ سے وہ اپنے شوہر کی قید میں چلی جاتی ہے۔ اس لئے اس عادل و رحیم اور حکیم شارع نے اجازت دی ہے کہ وہ اپنے شریک حیات کو دیکھ کر اس کا انتخاب کرے کیونکہ اس کے ساتھ اسی کو زندگی گزارنی ہے اور وہ اپنی رغبتوں اور خواہشات کو زیادہ اچھے انداز میں جانتی ہے۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ نے ثیبہ عورت کا صریح انداز میں حکم دیے بنا اس کا نکاح کرنے سے منع کیا ہے۔ اسی طرح کنواری لڑکی سے متعلق بھی منع فرمایا کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کیا جائے۔ چونکہ کنواری لڑکی پر حیا غالب ہوتی ہے اس وجہ سے اس کے سلسلے میں اس کے کہنے سے کم تر چیز کافی ہے یعنی اس کی اجازت اور اس سلسلے میں بھی اس کی خاموشی کافی ہے جو اس کی رضا کی دلیل ہوتی ہے۔