التواب
التوبةُ هي الرجوع عن الذَّنب، و(التَّوَّاب) اسمٌ من أسماء الله...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رفاعہ القرظی کی بیوی آئی اور کہا: میں رفاعہ قرظی کے حرم میں تھی، اس نے مجھے طلاق دی اور طلاقِ بتّہ دی، اس کے بعد میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کی۔ لیکن ان کے پاس تو (شرم گاہ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: کیا تم رفاعہ کے ہاں واپس جانا چاہتی ہو؟ ایسا نہیں ہو سکتا، جب تک تم اس (عبد الرحمن) کا مزا نہ چکھ لو اور وہ تمھارا مزا نہ چکھ لے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور خالد بن سعید دروازے پر اپنے لیے اجازت ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ تو انھوں نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے)کہا: ابوبکر! آپ سن رہے ہیں نا جو یہ زور زور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہی ہے؟
رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی حالت کی شکایت لے کر آئی اور کہا کہ میں رفاعہ کے حرم میں تھی۔ اس نے مجھے آخری طلاق یعنی طلاقِ بتّہ دے دی، یہ ان کی تیسری طلاق تھی۔ اس کے بعد انھوں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کی، لیکن وہ ان کا حق ادا نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے کہ ان کا آلۂ تناسل کمزور لٹکا ہوا تھا اور اس میں تناؤ نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اونچی آواز سے گفتگو کرنے اور ایک ایسے مسئلے کی صراحت کرنے پر مسکر اٹھے، جسے بیان کرنے سے عام طور پر عورتیں شرماتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ارادہ سمجھ گئے۔ یعنی وہ اپنے پہلے شوہر رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی تھیں۔ ان کے خیال میں عبدالرحمٰن کے ساتھ نکاح کرنے سے یہ رفاعہ کے لئے حلال ہو چکی ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات کا انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ رفاعہ کے لیے حلال ہونے کے لیے دوسرے شوہر کے ساتھ جماع کرنا ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے اور خالد بن سعید دروازے پر کھڑے اجازت ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے اس عورت پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے، جو اس طرح کی گفتگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کر رہی تھی، ابو بکر رضی اللہ عنہ کو آواز دی۔ یہ اس لیے کہ ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رعب اور جلال تھا۔ اللہ ان سے راضی ہو اور انھیں اپنے سے راضی کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب کی رعایت اور اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔