البارئ
(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ جب ہم کسی وادی میں اترتے تو لا الہ الا اﷲ اور اﷲ اکبر کہتے اور ہماری آواز بلند ہو جاتی اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو ! اپنی جانوں پر رحم کھاؤ ، کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو ۔ وہ تو تمہارے ساتھ ہی ہے ۔ بے شک وہ بہت سننے والا اور بہت قریب ہے ۔
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ وہ لوگ ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے۔ وہ بہ آواز بلند تہلیل وتکبیر کر رہے تھے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: "أيها الناس اربعوا على أنفسكم"۔یعنی اپنے آپ پر کچھ نرمی برتو اور آواز بلند کرکے اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالو۔ تم کسی ایسی ذات کو تو پکار نہیں رہے ہو جو بہری اور غیر موجود ہو بلکہ تم تو ایک سمیع و مجیب اور قریب ذات کو پکار رہے ہو یعنی اللہ عزّ وجلّ کو جسے اس بات کی کوئی حاجت نہیں کہ تم تسبیح و تحمید اور تکبیر کہتے ہوئے آواز بلند کرکے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالو۔ کیونکہ اللہ سنتا بھی اور دیکھتا بھی اور وہ قریب بھی ہے اگرچہ وہ آسمانوں سے اوپر ہے تاہم وہ ہر شے کو محیط ہے۔ عزوجل۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: "تدعون سميعاً بصيراً قريباً" یہ اللہ تعالی کے لیے مبالغے کے صیغے ہیں کیونکہ اللہ تعالی میں یہ صفات بدرجہ اتم موجود ہیں چنانچہ کوئی بھی جنبش چاہے وہ کتنی بھی مخفی ہو اس کی سماعت سے نہیں چوکتی۔ وہ رات کے اندھیرے میں چکنے سخت پتھر پر چلتی ہوئی چیونٹی کے رینگنے کی آواز کو بھی سنتا ہے بلکہ اس سے بھی مخفی آوازوں کو سنتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کی آنکھوں کے سامنے کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ وہ تمہاری سُروں اور تہمارے سانس کی آوازوں اور ہر ان کلمات کو سنتا ہے جو تم بولتے ہو اور تمہاری حرکات کو دیکھتا ہے۔ وہ اپنے پکارنے والے کے قریب ہوتا ہے۔ وہ تمام مخلوق سے آگاہ ہے اور ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ سب اس کے قبضہ میں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے عرش پر ہے اور اپنی تمام مخلوقات سے بالاتر ہے۔ اپنی تمام مخلوقات میں سے اس پر کوئی شے پوشیدہ نہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ سمع و بصر اور قرب اللہ کی صفات ہیں جو اس کے لیے بلا تکییف و تمثیل اور بلا تحریف و تاویل اس انداز میں ثابت ہیں جو اس کی ذات کے شایانِ شان ہے۔