المعطي
كلمة (المعطي) في اللغة اسم فاعل من الإعطاء، الذي ينوّل غيره...
عبد اللہ بن مسعود - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا۔" ایک شخص نے دریافت کیا کہ: آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے عمدہ ہوں۔(کیا یہ بھی تکبر کے زمرے میں آتا ہے)؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: "اللہ خوبصورت ہے اور وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر کا مطلب ہے: حق کو ہٹ دھرمی کے ساتھ نہ ماننا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔"
ابن مسعود - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو گا۔" یہ حدیث وعید پر مشتمل احادیث میں سے ہے اور شرعی دلائل کی روشنی میں کچھ محتاج تفصیل ہے۔ جس شخص کے دل میں تکبر ہوتا ہے اس کی وجہ یا تو حق سے روگردانی ہوتی ہے یا حق کی ناپسند یدگی۔ ایسا شخص کافر ہے جو ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: "ذلك بأنهم كرهوا ما أنزل الله، فأحبط أعمالهم" (محمد: 9۔) ترجمہ: یہ اس لیے کہ وه اللہ کی نازل کرده چیز سے ناخوش ہوئے، پس اللہ تعالیٰ نے (بھی) ان کے اعمال ضائع کر دیے۔ تاہم تکبر اگر مخلوق پر ہو اور اس میں مخلوق پر بڑائی جتلائی جاتی ہو لیکن وہ شخص اللہ کی عبادت سے روگردانی نہ کر رہا ہو تو اس کے بارے میں یہ وعید ہے کہ وہ سب سے پہلے گروہ کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ جب آپ ﷺ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو ایک شخص نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! آدمی کو یہ بات پسند ہوتی ہے کہ وہ اچھا کپڑا اور عمدہ جوتا پہنے، کیا یہ بھی تکبر میں شمار ہوتا ہے؟۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "اللہ خوبصورت ہے اور وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے"۔ یعنی اللہ اپنی ذات، اپنے افعال اور اپنی صفات کے اعتبار سے خوبصورت ہے ۔ اللہ تعالی سے جس بات کا بھی صدور ہوتا ہے وہ خوبصورت ہی ہوتی ہے لہذا اس میں کوئی قباحت نہیں۔ آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ: "وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے" تو اس کا معنی یہ ہے کہ: وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ انسان اپنے کپڑوں، اپنے جوتوں، اپنے جسم اور اپنے تمام امور میں خوبصورتی کو ملحوظ رکھے۔ کیوں کہ خوبصورتی کو اختیار کرنا دلوں کو انسان کی طرف کھینچتا ہے اور اسے لوگوں کے ہاں پسندیدہ بنا دیتا ہے بخلاف بدصورتی اختیار کرنے کے، جس کی وجہ سے انسان کے بالوں، اس کے کپڑوں اور اس کے لباس میں بگاڑ آجاتا ہے۔