الخالق
كلمة (خالق) في اللغة هي اسمُ فاعلٍ من (الخَلْقِ)، وهو يَرجِع إلى...
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ اور کسی مہینے میں روزے نہیں رکھتے تھے۔ شعبان کے پورے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے رہتے۔ ایک اور روایت میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے صرف چند دن کو چھوڑ کر تقریبا پورا مہینہ ہی روزہ رکھتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ ماہ شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے مین روزے سے نہیں رہتے۔ یقینا آپ ﷺ شعبان کا پورا مہینہ روزہ سے رہتے۔ ایک اور روایت میں ہے: چند دنوں کو چھوڑ کر آپ پورا شعبان ہی روزے رکھتے۔ یہ دوسری روایت، پہلی روایت کی تفسیر اور عائشہ رضی اللہ عنھا کے پہلے قول ”سارا مہینہ“ کی وضاحت ہے کہ سارا مہینہ سے مراد مہینے کا بیش تر حصہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ کسی سال آپ ﷺ سارا مہینہ روزہ رکھتے اور کسی سال اس ماہ میں کچھ روزے رکھتے۔ ایک قول یہ ہے کہ کسی سال اس ماہ کی ابتدا میں، کبھی اس کے آخر میں اور کبھی اس ماہ کے درمیانی دنوں میں روزے سے رہتے اور عموما اس ماہ کو بلا روزہ نہ چھوڑتے۔ البتہ کبھی کبھی کچھ دن چھوڑ بھی دیتے۔ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ انسان دیگر مہینوں کی بہ نسبت ماہ شعبان میں بکثرت روزوں کا اہتمام کرے؛ کیوں کہ نبی ﷺ اس ماہ میں روزوں کا بہت اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ رمضان المبارک کا یہ پیش رو مہینہ ہوتا ہے؛ ویسے ہی، جیسے جس طرح فرض کا پیش رو سنن رواتب ہوتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ شعبان میں بکثرت روزے رکھنے کو اس لیے خصوصیت دی گئی ہے کہ اس ماہ میں بندوں کے اعمال آسمان دنیا پر چڑھائے جاتے ہیں، جیسا کہ سنت سے اس کی دلیل ملتی ہے۔