العلي
كلمة العليّ في اللغة هي صفة مشبهة من العلوّ، والصفة المشبهة تدل...
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز میں ہمارے پاس تشريف لانے ميں اتنی تاخير کردی کہ قریب تھا کہ سورج کی ٹکیہ کو ہم دیکھ لیتے۔ پھر آپ ﷺ تیزی سے باہر تشریف لائے اور نماز کی طرف بلایا۔ آپ ﷺ نے مختصر نماز پڑھائی۔ جب آپﷺ نے سلام پھیرا تو خود پکار کر ہم سے فرمایا: ’’تم جیسے اپنی صفوں میں بیٹھے ہو ویسے ہی بیٹھے رہو۔‘‘ پھر آپ ﷺ ہماری طرف مڑے اور فرمایا: ’’میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کیا بات تھی جس کی وجہ سے میں آج تمہارے پاس آنے سے رکا رہا۔ میں رات کو اٹھا اور وضو کرکے جس قدر میرے نصیب میں تھی میں نے نماز پڑھی۔ پھر میں نماز میں ہی اونگھنے لگا یہاں تک کہ گہری نیند سو گیا۔اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے رب تبارک و تعالی کے پاس ہوں جو بہترین صورت میں ہے۔ رب تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد!۔ میں نے جواب دیا: اے میرے رب! میں حاضر ہوں۔ پوچھا: ملأ اعلی (فرشتوں کی اونچے مرتبے والی جماعت) کس بات پر جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا: اے میرے رب! میں تو اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ اللہ تعالی نے یہ بات تین دفعہ پوچھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے دیکھا کہ اللہ نے اپنی ہتھیلی میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دی یہاں تک کہ مجھے اپنے سینے پر اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک محسوس ہونے لگی۔ تو میرے لیے ہر شے واضح ہو گئی اور میں جان گیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: اے محمد!۔ میں نے جواب دیا: اے میرے رب! میں حاضر ہوں۔ فرمایا: ملأِ اعلی کا کس بات پر جھگڑا ہو رہا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ: (گناہوں کا) کفارہ بننے والے اعمال میں۔ فرمایا: کفارہ بننے والے اعمال کیا ہیں؟ میں نے جواب دیا: باجماعت نمازوں کے لیے پیدل چل کر جانا، نمازوں کے بعد مساجد میں بیٹھنا، ناگوار حالات ميں کامل اور اچھے طریقے سے وضو کرنا۔ پوچھا: اور کس چیز میں بحث کر رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا: کھانا کھلانے، نرم گفتاری اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو اس وقت نماز پڑھنے کے متعلق۔ پھر اللہ تعالی نے فرمایا: مانگو۔ میں نے کہا: اے اللہ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے، برائیوں کو چھوڑنے اور مساکین سے محبت کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں اور (میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ) تو مجھے معاف کر دے اور مجھ پر اپنی رحمت فرما اور جب تو کسی قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے فتنے ميں مبتلا کئے بغير موت دے دینا۔ میں تجھ سے تیری محبت، ہر اس شخص کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور ہر اس عمل سے محبت کی توفیق طلب کرتا ہوں جو تیری محبت کے قريب کردے ۔” آپ ﷺ نے فرمایا: “یہ حق ہے، اس پر غور کرو اور اسے سیکھو۔”
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ ایک دن نماز فجر کے لیے نبی کريم ﷺ نے نکلنے میں تاخير کردی یہاں تک کہ سورج طلوع ہونے کے قریب ہو گیا۔ پھر آپ ﷺ تیزی کے ساتھ باہر تشریف لائے اور اقامتِ نماز کا حکم دیا۔ آپ ﷺ نے انہیں مختصر نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کو حکم دیا کہ وہ صفوں میں اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہیں۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں بتلايا کہ آپ ﷺ کو کس وجہ سے نماز فجر میں تاخیر ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ رات کو نماز تہجد کے لیے اٹھے، وضو فرمایا اور جتنی رکعتیں اللہ کو منظور تھیں اتنی ادا کیں اور پھر اپنی نماز کے دوران ہی سو گئے۔ خواب میں آپ ﷺ نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھا۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ مقرب فرشتے کس شے کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: میں تو کچھ نہیں جانتا۔ یہ سوال و جواب تین دفعہ ہوا۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی نبی ﷺ کے دونوں شانوں کے مابین رکھ دی یہاں تک کہ آپ ﷺ کو اپنے سینے میں اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کی ٹھنڈک محسوس ہونے لگی۔ نبی ﷺ نے جن اوصاف سے اپنے رب عز و جل کو متصف کیا ہے وہ حق اورسچ ہيں اور اللہ تعالی نے جن اوصاف سے اپنے آپ کو متصف کیا ہے ان پر جوں کا توں بغیر کسی تمثیل کے ایمان لانا اور ان کی تصدیق کرنا واجب ہے۔ جسے اسے سمجھنے میں کچھ اشکال یا اشتباہ ہو تو وہ ویسے ہی کہہ دے جیسے وہ پختہ علم والے لوگ کہتے ہیں جن کی اللہ تعالی نے تعریف فرمائی اور ان کے بارے میں بتایا کہ ان کے سامنے جب کوئی مشتبہ بات آتی ہے تو وہ کہتے ہیں: (آمنّا به كُلٌّ من عند ربِّنا۔) ترجمہ: ’’ہم اس پر ایمان لائے۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔‘‘ اس شخص کو چاہیے کہ جس بات کا اسے علم نہ ہو اس کے درپے نہ ہو، کیونکہ اس سے اس کے ہلاکت میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ مومن لوگ تو جب بھی اس طرح کی بات سنتے ہیں وہ کہہ دیتے ہیں کہ ایسا اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں بتلایا ہے اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ ہی کہا ہے۔ ایسا کہنا ان کے ایمان اورجذبۂ اطاعت گزاری میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی نبی ﷺ کے کندھوں کے مابین رکھی تو آپ ﷺ کے سامنے ہر بات کھل گئی اور آپ ﷺ کو جواب کا علم بھی ہو گیا چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ فرشتے ایسی خصلتوں کے بارے میں گفتگو، بحث اور جھگڑا کر رہے ہیں جو گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں۔ ان کےجھگڑنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ان اعمال کے اثبات اور انہیں لے کر آسمان کی طرف چڑھنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر اس سے مراد ان کا ان کی فضیلت اور شرف کے بارے میں گفتگو کرنا ہے۔ یہ خصلتیں یہ ہیں: نماز باجماعت کے لیے پیدل چل کر جانا، نمازوں کے ختم ہو جانے کے بعد ذکر، تلاوتِ قرآن اورعلم سیکھنے اور سکھانے کے لیے مساجد میں بیٹھنا، پورے طریقے سے وضو کرنا اور وضو کے پانی کوان تمام جگہوں تک پہنچانا جہاں تک پہنچانا شرعاً ضروری ہو، ان حالات میں بھی جن ميں وضو کرنا ناگوار محسوس ہوتا ہو جیسے سخت سردی میں۔ رب تعالی شانہ نے پھر پوچھا: مقرب فرشتے اور کن باتوں میں جھگڑ ا کرتے ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو کھانا کھلانے میں، لوگوں سے اچھے انداز اور نرم لہجے میں بات کرنے میں اور رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق جب کہ لوگ سو رہے ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجھ سے جو چاہتے ہو مانگو۔ اس پر نبی ﷺ نے اللہ سے دعا کی کہ وہ اسے ہر نیکی کو کرنے، ہر برائی کو ترک کرنے اور فقراء اور مساکین سے محبت کرنے کی توفیق دے اور یہ کہ اللہ آپ کو بخش دے اور آپ پر رحم فرمائے اور جب اللہ کا کسی قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنے اور انہیں راہ حق سے گمراہ کرنے کا ارادہ ہو تو وہ آپ ﷺ کو فتنے اور گمراہی سے بچاتے ہوئے اس سے پہلے ہی موت دے دے اور یہ کہ اللہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے اور ہر اس شخص سے محبت کرنے کی توفیق دے جو اللہ سے محبت کرتا ہو اور ہر اس عمل کو آپ ﷺکے لیے محبوب بنا دے جو اللہ کی قربت کا ذريعہ ہو۔ پھر نبی ﷺ نے اپنے صحابۂ کرام کو بتایا کہ یہ خواب برحق ہے اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس پر غور کریں اور اس کے معانی اور احکامات کو سیکھیں۔