الأكرم
اسمُ (الأكرم) على وزن (أفعل)، مِن الكَرَم، وهو اسمٌ من أسماء الله...
سہیل کہتے ہیں کہ ابوصالح ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جب ہم میں سے کوئی شخص سونے کا ارادہ کرے تو بستر پر دائیں کروٹ لیٹے، پھر یہ دعا پڑھے: ’’اللهم ربَّ السماواتِ وربَّ الأرض وربَّ العرش العظيم، ربَّنا وربِّ كلِّ شيء، فالقَ الحَبِّ والنَّوى، ومُنْزِلَ التوراة والإنجيل والفُرقان، أعوذ بك من شرِّ كل شيء أنت آخذٌ بناصيتِه، اللهم أنت الأولُ فليس قبلك شيء، وأنت الآخرُ فليس بعدك شيء، وأنت الظاهرُ فليس فوقك شيء، وأنت الباطن فليس دونك شيء، اقضِ عنَّا الدِّينَ، وأغنِنا من الفقر‘‘۔ (اے اللہ ! اے آسمانوں کے رب اور زمین کے رب اور عرش عظیم کے رب، اے ہمارے رب اور ہر چیز کے رب، دانے اور گٹھلیوں کو چیر (کر پودے اور درخت اگا) دینے والے ! تورات، انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے! میں ہر اس چیز کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضے میں ہے، اے اللہ ! تو ہی اول ہے، تجھ سے پہلے کوئی شے نہیں، اے اللہ ! تو ہی آخر ہے، تیرے بعد کوئی شے نہیں ہے، تو ہی ظاہر ہے، تیرے اوپر کوئی شے نہیں ہے، تو ہی باطن ہے، تجھ سے پیچھے کوئی شے نہیں ہے، ہماری طرف سے (ہمارا) قرض ادا کر اور ہمیں فقر سے بے نیازی عطا فرما۔ " وہ اس حدیث کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ (آگے) اسے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے تھے۔
نبی ﷺ اپنے صحابہ کو حکم دیا کرتے تھے کہ جب ان میں سے کوئی سونے کا ارادہ کرے تو اپنی دائیں کروٹ پر سوئے اور پھر یہ دعا کہے «اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَيْئٍ» یعنی اے آسمانوں اور زمین کے رب، ان کو پیدا کرنے والے اور ان کے مالک اور اس میں رہنے والوں کو پالنے والے اور اے بہت بڑے عرش کے رب، اس کے خالق اور مالک، تمام لوگوں کے خالق، مالک اور ان کے پالنہار اور ہر چیز کے رب۔ «فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَی» یعنی دانے اور گھٹلی کو پھاڑ کر ان سے کھیتی اور کھجور نکالنے والی ذات۔ دانے اور گھٹلی کو خصوصیت کے ساتھ یا تو ان کی فضیلت کی وجہ سے خاص کیا ہوگا یا عرب ممالک میں اس کے زیادہ پائے جانے کی وجہ سے کیا۔ «وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْفُرْقَانِ» یعنی اے وہ ذات جس نے تورات موسیٰ علیہ السلام پر، انجیل عیسیٰ علیہ السلام پر اور قرآنِ کریم محمد ﷺ پر نازل فرمائی ہے۔ «أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَيْئٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهِ» یعنی مخلوقات میں سے ہر چیز کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اس لیے کہ یہ سب تیری بادشاہت، قبضے اور تصرف میں ہے۔ «اللَّهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَکَ شَيْئٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَکَ شَيْئٌ وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَکَ شَيْئٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَکَ شَيْئٌ» آپ ﷺ نے ان چار اسماء کی تفسیر وضاحت کے ساتھ کی ہے۔ ’’الأول‘‘: یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ کے سوا ہر چیز حادث اور عدم سے وجود میں آئی ہے، انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ دینی اور دنیوی ہر طرح کی نعمت میں اپنے رب کے فضل کو تسلیم کرے، اس لیے کہ سبب اور مسبب دونوں اللہ کی طرف سے ہیں۔ ’’الآخر‘‘: یہ اسم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ باقی اور اس کے علاوہ ہر چیز فانی ہے۔ اور یہ کہ وہ بے نیاز ہے اس کی طرف تمام مخلوقات اپنی عبادت، رغبت، رہبت اور تمام مطالبات لے کر متوجہ ہوتی ہیں۔ ’’الظاهر‘‘: یہ اسم اللہ تعالیٰ کی صفات کی عظمت اور اس کی ذات و صفات کی عظمت کے سامنے ہر چیز کے ختم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔اسی طرح یہ نام تمام مخلوقات پر اللہ تعالیٰ کی حقیقی بلندی پر دلالت کرتی ہے۔ ’’الباطن‘‘: یہ اسم تمام رازوں، پوشیدہ و مخفی چیزوں اور اشیاء کی باریکیوں پر اللہ تعالیٰ کے مطّلع ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح یہ اللہ تعالیٰ کے قُرب اور نزدیکی پر بھی دلالت کرتا ہے، یہ ظاہر اور باطن کے منافی نہیں۔ اس لیے کہ تمام صفات میں اللہ تعالیٰ کا کوئی مثل نہیں، وہ اپنے قُرب میں بلند اور اپنی بلندی میں قریب ہے۔ «اقْضِ عَنَّا الدَّيْنَ وَأَغْنِنَا مِنْ الْفَقْرِ» اس کے بعد آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے اپنے قرض کی ادائیگی اور فقر سے بے نیازی کا سوال کیا۔