الملك
كلمة (المَلِك) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعِل) وهي مشتقة من...
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر کسی حبشی غلام ہی کو حاکم مقرر کر دیا جائے، جس کا سر کشمش کی طرح (چھوٹا سا) ہو۔"
حکمرانوں کی اطاعت کرو اگرچہ تم پر نسب اور شکل و صورت کے اعتبار سے ایک ایسا حبشی غلام امیر مقرر دیا جائے جس کا سر کشمش کی طرح ہو کیونکہ حبشی لوگوں کے بال عرب کے لوگوں کے بالوں کی طرح نہیں ہوتے۔ حبشی لوگوں کے سروں میں حلقے (دائرے) ہوتے ہیں اور وہ ایسے لگتے ہیں جیسے کشمش ہوں۔ اس پیرائے میں مبالغہ کا معنی ہے کہ چاہے یہ حاکم نسب کے اعتبار سے سیاہ فام غلام ہی کیوں نہ ہو۔ ((وإن استعمل) ’’ اگر حاکم مقرر کر دیا جائے‘‘: اس کا اطلاق حکمران کی طرف سے مقرر کردہ گورنر پر بھی ہوتا ہے اور خود حکمران پر بھی۔ بالفرض اگر کوئی حاکم لوگوں پر غلبہ حاصل کرلے، اور ان پر قبضہ واقتدار جمالے اور وہ عرب میں سے نہ ہو، بلکہ ایک سیاہ فام غلام ہو تو پھر بھی ہم پر فرض ہے کہ ہم اس کی بات کو سنیں اور اس کی اطاعت کریں۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حکمرانوں کی اطاعت کرنا فرض ہے ماسوا ان امور کے جن میں اللہ کی معصیت ہو۔ کیونکہ ان کی اطاعت کرنے میں خیر و بھلائی، اور امن و استقرار ہے اور اس کی وجہ سے انارکی نہیں پھیلتی اور ہوائے نفس کی پیروی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر کسی معاملے میں حکمرانوں کی نافرمانی کی جائے جس میں ان کی اطاعت لازم ہے، تو انارکی پھیلے گی اور ہر کوئی اپنی من مرضی پر چلنا شروع کر دے گا، امن و امان ختم ہوجائے گا، معاملات بدعنوانی کا شکار ہوجائیں گے، اور فتنوں کی کثرت ہو جائے گی۔ اس لیے ہمارے اوپر واجب ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں کی اطاعت کریں ماسوا اس صورت کے کہ وہ ہمیں معصیت کا حکم دیں۔ اگر وہ ہمیں اللہ کی معصیت کا حکم دیں تو ہمارا اور ان کا رب اللہ ہے، وہی فیصلہ کرے گا اور اس معاملے میں ہم ان کی اطاعت نہیں کریں گے۔ بلکہ ہم ان سے کہیں گے کہ: تمہارے اوپر فرض ہے کہ تم اللہ کی معصیت سے بچو۔ تو پھرتم ہمیں کیسے اس کا حکم دے رہے ہو؟ لہٰذا ہم نہ تمہاری بات سنیں گے اور نہ اطاعت کریں گے۔ حکمران جن باتوں کا حکم دیتے ہیں ان کی تین اقسام ہیں: پہلی قسم: اللہ نے اس بات کا حکم دیا ہو۔ مثلا وہ ہمیں حکم دیں کہ ہم مساجد میں نماز باجماعت قائم کریں اور وہ ہمیں اچھے کاموں کے کرنے کا اور برے کاموں سے باز رہنے کا حکم دیں اور اس طرح کے دیگر امور۔ تو ان کو ماننا دو وجہوں سے ضروری ہے، ایک تو اس لیے کہ وہ بذات خود واجب ہے اور دوسرا اس لیے کہ حکمرانوں نے اس کا حکم دیا ہے۔ دوسری قسم: وہ ہمیں اللہ کی معصیت کا حکم دیں۔ اس صورت میں ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم اس میں ان کی اطاعت کریں چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ مثلاً وہ کہیں کہ: جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھو، اپنی داڑھیاں منڈا دو، اپنے کپڑوں کو نیچے تک لٹکاؤ، مسلمانوں پر ظلم کرو‘ ان کا مال لوٹ لو یا انہیں مارو پیٹو وغیرہ۔ تو ایسا حکم قابل اطاعت نہیں اور ہمارے لیے اس میں ان کی اطاعت کرنا حلال نہیں ہے۔ تاہم ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں نصیحت کریں اور ان سے کہیں: اللہ سے ڈرو، یہ کام جائز نہیں ہے، تمہارے لیے یہ حلال نہیں کہ تم اللہ کے بندوں کو اللہ کی معصیت کا حکم کرو۔ تیسری قسم: وہ ہمیں کسی ایسے کام کا حکم دیں جس کے بارے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے نہ تو کوئی حکم ہو اور نہ ہی اس سے منع ہی کیا گیا ہو۔ تو ایسی صورت میں ہم پر ان کی اطاعت کرنا واجب ہوگا۔ جیسے وہ انظمہ و قوانین جنہیں وہ تشکیل دیتے ہیں اور وہ شریعت کے مخالف نہیں ہوتے۔ تو ہم پر واجب ہے کہ ہم ان میں ان کی اطاعت کریں اور ان نظاموں اور اس تقسیم کی پیروی کریں۔ لوگ جب ایسا کریں گے تو اس سے انہیں امن، استقرار، آرام اور اطمئان ملے گا اور وہ اپنے حکمرانوں سے محبت کرنے لگ جائیں اور ان کے حکمران بھی ان سے محبت کریں گے۔