القدوس
كلمة (قُدُّوس) في اللغة صيغة مبالغة من القداسة، ومعناها في...
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے: "اللهم ربَّنا لك الحمدُ، أنت قَيِّمُ السموات والأرض، ولك الحمدُ أنت ربُّ السموات والأرض ومَن فيهنَّ، ولك الحمدُ أنت نورُ السموات والأرض ومن فيهنَّ، أنت الحقُّ، وقولُك الحقُّ، ووعدُك الحقُّ، ولقاؤك الحقُّ، والجنةُ حقٌّ، والنارُ حقٌّ، والساعةُ حقٌّ، اللهم لك أسلمتُ، وبك آمنتُ، وعليك توكَّلتُ، وإليك خاصمتُ، وبك حاكمتُ، فاغفر لي ما قدَّمتُ وما أخَّرتُ، وأسررتُ وأعلنتُ، وما أنت أعلم به مني، لا إلهَ إلا أنت"۔ ترجمہ: "اے اللہ، اے ہمارے رب! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے، تو آسمانوں اور زمین کا سنبھالنے والا ہے۔ تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں۔تو آسمانوں اور زمین اور ان میں بسنے والی تمام مخلوقات کا پروردگار ہے۔ تمام تعریفیں تجھے ہی زبیا ہیں، تو آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود چیزوں کا نور ہے۔ تو حق ہے، تیرا فرمان حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیری ملاقات حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے اور قیامت حق ہے۔ اے اللہ! میں تیرے ہی لیے تابع ہوا اور تجھی پر میں ایمان لایا، اور تجھی پر میں نے بھروسہ کیا، اور تیری مدد کے ساتھ ہی میں نے (دشمن سے) جھگڑا کیا اور تیری ہی طرف میں فیصلہ لے کر آیا۔ پس تو مجھے معاف فرما دے جو کچھ میں نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں کیا، جو میں نے پوشیدہ کیا اور جو کچھ سرِ عام کیا اور جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔"
نبی ﷺ جب رات کی نماز (تہجد) کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کے بعد فرماتے: "اے اللہ، اے ہمارے رب! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے۔" یعنی تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے واجب ہیں اور وہی ان کا حق دار ہے۔ چنانچہ وہ اپنی صفات اور اپنے اسماء پر، اپنی نعمتوں اور اپنے احسانات پر، اپنی تخلیق اور اپنے افعال پر اور اپنے امر اور حکم پر لائقِ تعریف ہے، نیز وہی اول و آخر میں اور ظاہر و باطن میں لائقِ ستائش ذات ہے۔ پھر آپ فرماتے: "تو آسمانوں اور زمین کا سنبھالنے والا ہے"۔ یعنی تو ہی وہ ذات ہے جس نے ان آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود دے کر قائم کیا اور تو ہی ہے جو ان کی اس طرح سے دیکھ بھال کرتا ہے کہ یہ درست اور اپنی حالت پر قائم رہتے ہیں۔ پس تو ہی خالق و رازق، مالک و مدبر اور زندگی و موت دینے والا ہے۔ پھر فرماتے: "تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، تو آسمانوں اور زمین اور ان میں بسنے والی تمام مخلوقات کا پروردگار ہے۔" یعنی تو ان دونوں کا اور ان میں جو کچھ ہے سب کا مالک ہے، تو جیسے چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے اور تو ہی ان کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔ پس بادشاہت صرف تیرے لیے ہےاور تیرے ساتھ اس میں کوئی شریک نہیں اور نہ ہی کوئی اور مدبر ہے۔ تو با برکت اور بلند ہے۔ پھر فرماتے: "تمام تعریفیں تجھے ہی زبیا ہیں، تو آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود تمام مخلوقات کا نور ہے۔" اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ نور ہے اور اپنے اس نور کے ذريعہ وہ اپنے مخلوق سے مستور ہے۔ اور اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو منور کرنے والا ہےاور ان میں بسنے والوں کو راہ سجھاتا ہے۔ اللہ تعالی سے صفتِ نور کی نفی کرنا یا اس کی تاویل کرنا کسی بھی طورپر درست نہیں ہے۔ پھر فرماتے: "تو حق ہے۔" حق اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم اور اس کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ پس اللہ اپنی ذات اور صفات میں حق ہے۔ وہ واجب الوجود ہے (ایسا موجود کہ جس کا وجود ضروری اور کسی پیدا کرنے والے سے بے نیاز ہے) اور اس کی صفات کامل ہیں، اس کا وجود اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے اور ہر شے کا وجود اللہ ہی کے ذريعہ ہے۔ پھر فرماتے: "تیرا فرمان حق ہے۔" یعنی تو نے جو کچھ کہا وہ سچ، حق اور عدل ہے۔ اس میں آگے پیچھے کسی بھی طرف سے باطل کے در آنے کی گنجائش نہیں، نہ اس کی خبر میں، نہ اس کے حکم اور اس کی تشریع میں اور نہ ہی اس کے وعدے اور وعید میں۔ پھر فرماتے: "تیرا وعدہ حق ہے۔"۔ یعنی تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ تو نے جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور ویسے ہی ہو کر رہے گا جیسے تو نے وعدہ کیا ہے۔ اس ميں نہ ہی وعدہ خلافی کی گنجائش ہے اور نہ ہی کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ پھر فرماتے: "تیری ملاقات حق ہے۔" یعنی بندے ضرور تجھ سے ملاقات کریں گے اور تو ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ ملاقات میں اللہ سبحانہ تعالی کی رؤیت بھی شامل ہے۔ پھر فرماتے: "جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے"۔ یعنی دونوں ثابت و موجود ہیں جیسا کہ تو نے بتایا ہے کہ یہ دونوں ان کے اندر جانے والوں کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ یہ دونوں دار البقاء (ہمیشہ رہنے والے) ہیں اور یہی دونوں تمام بندوں کا آخری ٹھکانہ ہیں۔ پھر فرماتے: "قیامت حق ہے۔" یعنی روز قیامت کا آنا حق ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ضرور آ کر رہے گی۔ یہ دنیا کا اختتام اور آخرت کی ابتدا ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان: "اے اللہ میں تیرا تابع فرمان ہوا۔" یعنی میں تسلیم و رضا کے ساتھ تیرے حکم کا مطیع و فرماں بردار ہوں۔ اور آپ کا فرمان: "میں تجھ پر ایمان لایا"۔ یعنی میں نے تیری اور تو نے جو کچھ نازل کیا اس کی تصدیق کی اور اس کے تقاضے پر عمل کیا۔ "میں نے تجھی پر توکل کیا۔" یعنی میرا بھروسہ تجھی پر ہے اور میرے تمام معاملات تیرے سپرد ہیں۔ "تیری مدد کے ساتھ ہی میں نے جھگڑا کیا"۔ یعنی تو نے مجھے جو دلائل دیے ہیں ان کے ساتھ میں نے مخالفِ حق سے بحث کیا اور اس پر غلبہ پالیا۔ "تیری ہی طرف میں فیصلہ لے کر آیا۔" یعنی جس نے بھی حق کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اسے تسلیم نہیں کیا، اس کا معاملہ میں تیری بارگاہ میں لے کر آیا اور اپنے اور اس کے مابین تجھی کو فیصل بنایا اور کسی بھی طاغوت جیسے خود ساختہ قانون، یا کاہن یا ایسے ہی دیگر شرعاً باطل ذرائع سے فیصلہ کرانے سے گریز کیا جن سے لوگ اپنے فیصلے کراتے ہیں۔ آپ ﷺ کا فرمان: " پس تو مجھے معاف فرما دے جو کچھ میں نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں کیا، جو میں نے پوشیدہ کیا اور جو کچھ سرِ عام کیا اور جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔" یعنی میرے وہ تمام گناہ معاف فرما جن کا میں مرتکب ہوا ہوں اور جن کا میں آگے بعد میں مرتکب ہوں گا، اور اس میں سے جو کچھ تیرے کسی مخلوق کے سامنے ظاہر ہیں اور جو ان سے چھپے ہوئے ہیں اور تیرے علاوہ انہیں کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ ﷺ اپنی دعا کا اختتام اپنے ان الفاظ کے ساتھ کیا: "تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔" چنانچہ میں تیرے سوا کسی اور کی طرف متوجہ نہیں ہوتا کیونکہ تیرے سوا جس کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ باطل ہے اور اس سے دعا کرنا گمراہی اور وبال ہے۔ یہی وہ توحید ہے جسے اللہ کےتمام رسول لے کر آئے اور اللہ تعالی نے اسے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔