السلام
كلمة (السلام) في اللغة مصدر من الفعل (سَلِمَ يَسْلَمُ) وهي...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ’’آدم اور موسی علیہما السلام میں مباحثہ ہوا۔ موسی علیہ السلام نے ان سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں۔ آپ ہی ہماری محرومی کا سبب بنے اور آپ نے ہمیں جنت سے نکلوا دیا۔ (اس پر) آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: اے موسی! آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کے لیے منتخب كيا اور آپ کے لیے اپنے ہاتھ سے تورات کو لکھا۔ کیا آپ مجھے ایک ایسی بات پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟ چنانچہ آدم علیہ السلام (دلیل میں) موسی علیہ السلام پر غالب آگئے۔ آدم علیہ السلام (دلیل میں) موسی علیہ السلام پر غالب آگئے۔‘‘
’’آدم اور موسی علیہما السلام میں مباحثہ ہوا۔‘‘ یعنی ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کے سامنے اپنی دلیل بیان کی۔ ممکن ہے کہ ایسا موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ہوا ہو یا پھر خواب میں ہوا ہو کیونکہ انبیاء کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ اس طرح کی بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے، اور ہم اس کی حقیقت سے آگاہ ہونے سے قاصر ہیں۔ ”موسی علیہ السلام نے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں۔ آپ ہی ہماری محرومی کا سبب بنے اور آپ نے ہمیں جنت سے نکلوا دیا۔“ یعنی آپ اس غلطی کے سبب ہماری محرومی اور دوری کی وجہ بنے جس کی وجہ سے آپ کو جنت سے نکال دیا گیا اور پھر ہم بھی شیطانوں کے بہکاؤں کے برسرِ پیکار ہوگئے۔ "آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: اے موسی! آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کے لیے منتخب کیا۔“ یعنی اپنا کلام سنانے کے لیے اللہ نے آپ کو چنا۔ تمام رسولوں میں سے صرف موسی علیہ السلام کا یہ خاصہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی واسطے کے ان سے ہم کلام ہوا اور انہیں اپنا وه کلام سنایا جو الله کی طرف سے انہی کے ليے تھا۔ “اپنے ہاتھ سے آپ کے لیے (تورات کو) لکھا۔” یعنی توریت کو اپنے ہاتھ سے آپ کے لیے لکھا۔ ہمارے اوپر واجب ہے کہ ہم اس بات پر بغیر کسی تکییف و تعطیل اور بنا کسی تحریف و تمثیل کے ایمان لائیں۔ ”کیا آپ مجھے ایسی بات پر ملامت کر رہے ہیں جو اللہ نے میری تخلیق سے چالیس سال پہلے میرے لیے مقدر کر دی تھی؟“ یعنی ایک ایسی بات پر آپ مجھے کیسے ملامت کر رہے ہیں جسے اللہ نے میری تخلیق سے چالیس سال پہلے لوح محفوظ میں اور توریت کے صحیفوں اور اس کی تختیوں میں لکھ دیا تھا۔ ”چنانچہ آدم علیہ السلام دلیل میں موسی علیہ السلام پر غالب آگئے“۔یعنی حجت کے ذریعے ان پر غالب آ گئے۔ آدم علیہ السلام کی موسی علیہ السلام پر حجت یہ تھی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو جب آدم علیہ السلام کے بارے میں اس بات کا علم تھا کہ وہ جنت سے نکل کر زمین پر اتر جائیں گے تو وہ اللہ کے علم کو کیسے رد کر سکتے تھے۔ آدم علیہ السلام کی حجت غالب آ گئی کیونکہ جو شے نوشتۂ تقدیر ہو اس میں رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ وہ تقدیر ہوتی ہے جسے علیم و قدیر ذات نے متعین کیا ہوتا ہے چنانچہ اسے ٹالا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس کے واقع ہونے کے بعد اس کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ اسے تسلیم کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ تاہم جو شے واقع نہیں ہوئی ہے اس میں تقدیر حجت نہیں بن سکتی کیونکہ انسان کو حکم ہے کہ وہ نیک اعمال کرےاور برائی سے اجتناب کرے اور اسے نہیں معلوم کہ اس کے حق میں کون سی شے مقدر ہے یہاں تک کہ وہ واقع ہو جائے۔ جب کوئی بات واقع ہو جائے اور اس کا ٹالنا ناممکن ہو جائے تو اس وقت وہ تقدیر کے سپرد کرے اور کہے کہ: یہ اللہ کی طرف سے مقدر تھا اور اس نے جو چاہا کیا۔ اور وہ اپنے گناہ پر معافی کا طلب گار ہو اور اپنے رب سے توبہ کرے۔ چنانچہ واضح ہو گیا کہ آدم علیہ السلام موسی علیہ السلام پر اس وقت دلیل میں غالب آ گئے جب موسی علیہ السلام نے آدم علیہ السلام کو اس (خطا) پر ملامت کرنا چاہا جس کی بدولت ان کی اولاد مصیبت سے دوچار ہوئی۔ آدم علیہ السلام نے دلیل دی کہ یہ مصیبت پہلے سے ہی مقدر تھی اور اس کو واقع ہو کر ہی رہنا تھا۔ چاہے مصائب وہ ہوں جو بندوں کے افعال کی وجہ سے آتے ہیں یا ان کے علاوہ ہوں، بندے پر(ہر صورت میں) صبر و تسلیم ہی واجب ہے، تاہم اس کی بنا پر مجرم سے ملامت اور اس کی سزا ساقط نہیں ہوتی۔