المجيد
كلمة (المجيد) في اللغة صيغة مبالغة من المجد، ومعناه لغةً: كرم...
عبد اللہ بن ابی بکر بن حزم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے لیے جو مکتوب تحریر مایا تھا اس میں تھا کہ: ’’قرآن کو صرف طاہر ہی چھوئے۔‘‘
حدیث کا مفہوم: ’’رسول اللہ ﷺ نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے لیے جو مکتوب تحریر مایا تھا۔‘‘ یعنی عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ جب نجران کے قاضی تھے تو آپ ﷺ نے انہیں ایک تفصیلی مکتوب لکھ کر دیا تھا جس میں بہت سے احکامِ شریعت جیسے فرائض و صدقات اور دیات وغیرہ کا بیان تھا۔ یہ ایک مشہور مکتوب ہے جسے امت نے قبول کیا ہے۔ ’’قرآن کو صرف طاہر ہی چھوئے۔‘‘ یہاں چھونے سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص قرآن پاک کو بغیر کسی آڑ کے براہ راست ہاتھ لگائے۔ اس بنیاد پر اگر آدمی کسی ایسی آڑ کے پیچھے سے اسے اٹھائے جو اس سے الگ ہو مثلاً وہ اسے کسی تھیلی یا بیگ میں اٹھائے، یا لکڑی وغیرہ سے اس کے اوراق پلٹے تو یہ اس ممانعت کے دائرے میں نہیں آئے گا کیونکہ اس صورت میں چھونے کا عمل نہیں ہوا ہے۔ یہاں قرآن سے مراد وہ تختیاں، اوراق اور چمڑے وغیرہ ہیں جن پر قرآن لکھا گیا ہے، یہاں قرآن سے مراد کلام نہیں ہے کیونکہ کلام کو چھوا نہیں بلکہ سنا جاتا ہے۔ ’’سوائے طاہر کے‘‘ طاہر کا لفظ چار معانی میں مشترک ہے: اول: طاہر سے مراد مسلمان ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ﴾ “مشرک تو ہیں ہی ناپاک۔” دوم: اس سے مراد وہ شخص ہو جو نجاست سے پاک ہو، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بلی کے بارے میں فرمایا: ’’یہ نجس نہیں ہے۔‘‘ سوم: اس سے مراد وہ شخص ہے جو جنابت سے پاک ہو۔ چہارم: طاہر سے مراد باوضو شخص ہے۔ اس حدیث میں شریعت کی رو سے طہارت کے ان سبھی معانی کے مراد ہونےکا احتمال ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسی دليل يا قرينہ نہیں ہے جس کی بنا پر ہم ان میں سے کسی ایک کو دیگر معانی پر ترجیح دے سکيں۔ چنانچہ اولیٰ یہی ہے کہ اس لفظ کو اس کے ممکنہ معانی میں سے سب سے ادنیٰ معنی پر محمول کیا جائے، اور وہ حدثِ اصغر سے طاہر شخص ہے۔ (یعنی جس کا وضو نہ ہو وہ قرآن نہ چھوئے)۔ کیوں کہ یہ معنی یقینی ہے اور جمہورِ علماء بشمول ائمۂ اربعہ اور ان کے متبعین کے مسلک کے بھی موافق ہے۔ نیز اسی میں احتیاط اور یہی اولی ہے۔