المعطي
كلمة (المعطي) في اللغة اسم فاعل من الإعطاء، الذي ينوّل غيره...
عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہ بتوں کی قسم کھاؤ اور نہ ہی اپنے آبا و اجداد کی۔
اس حدیث میں نبی ﷺ نے "طواغی" کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے۔ 'الطواغی' سے مراد وہ بت ہیں جن کی زمانہ جاہلیت میں پوجا کی جاتی تھی۔ انہیں یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ ان لوگوں کی سرکشی و کفر کا سبب تھے۔ ہر وہ شے جو کسی کی تعظیم کرنے یا کسی اور بات میں حد سے بڑھ جائے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ "قد طغی"۔ چنانچہ طغیان کا مطلب ہے حد سے آگے بڑھنا۔ اللہ تعالی کے اس قول میں بھی طغیان کا یہی معنی ہے: (لما طغى الماء حملناكم في الجارية)۔(سورہ الحاقہ: 11)۔ ترجمہ: جب پانی حد سے گزر گیا تو ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کردیا۔ "طغی" یعنی حد سے تجاوز کر گیا۔ زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ اپنے معبودان باطلہ اور اپنے آبا واجداد کی قسم اٹھایا کرتے تھے چنانچہ انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا گیا جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے ۔ سنن ابی داؤد اور دیگر کتب حدیث میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہ تم اپنے باپوں کی قسم کھاؤ، نہ ماؤں کی اور نہ ہی بتوں کی۔ "الند" کا معنی ہے ہم مثل۔ یہاں اس سے مراد ان کے بت وغیرہ ہیں جنہیں ان لوگوں نے عبادت میں اور قسم اٹھانے میں اللہ کا ہم مثل بنا رکھا تھا۔ مثلا وہ کہا کرتے: واللات و العزی۔ (لات کی قسم اور عزی کی قسم)۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: خبردار! اللہ تعالی تمہیں اپنے آبا و اجداد کے نام کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے۔ جسے قسم اٹھانی ہی ہو تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا پھر چپ رہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: " ولا بآبَائِكُم "۔ یعنی نہ اپنے بھائی بندوں کی، نہ اپنے آبا و اجداد کی اور نہ ہی اپنے سرداران قوم کی قسم اٹھاؤ۔ تاہم آپ ﷺ نے بطور خاص آبا و اجداد کو ذکر کیا کیونکہ وہ عموماً انہی کی قسم اٹھایا کرتے تھے۔ " من كان حالفا، فليَحْلِف بالله أو ليَصْمُت "۔ یعنی یا تو وہ اللہ کی قسم اٹھائے یا پھر سرے سے قسم اٹھائے ہی نہیں۔ بہرحال اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھانا قطعا درست نہیں ہے۔ علماء رحمھم اللہ کا کہنا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی قسم اٹھانے کی ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ قسم میں اس ذات کی تعظیم ہوتی ہے جس کی قسم اٹھائی جائے جب کہ حقیقی طور پر عظمت اللہ ہی کے ساتھ خاص ہے اس لیے اس کے مشابہ کسی اور کو نہیں ہونا چاہیے۔ شرح مسلم للنووي (11 /105 ، 108)، سبل السلام (2 /545) اور شرح رياض الصالحين لابن عثيمين(6/453)۔