الغني
كلمة (غَنِيّ) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) من الفعل (غَنِيَ...
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ام سائب یا ام مُسیَّب کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے ام سائب (یاپھر یہ فرمایا) اے ام مُسیَّب! تمھیں کیا ہوا ہے، کیوں کانپ رہی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بخار کی وجہ سے۔ اللہ اس میں برکت نہ دے! اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "بخار کو برا بھلا مت کہو۔ یہ تو بنی آدم کے گناہوں کو اس طرح صاف کر دیتا ہے، جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو صاف کردیتی ہے۔
جابر رضی اللہ عنہ اس حدیث میں بیان کرر ہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ام السائب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے، جو کانپ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا، تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ بخار کی وجہ سے کانپ رہی ہیں۔ "الحمی" اس حرارت کو کہا جاتا ہے، جو جسم کو لاحق ہوتی ہے۔ یہ ایک قسم کا مرض ہے، جس کے کئی انواع ہیں۔ " لا بارك الله فيها "۔ ام سائب جس بخار کے مرض میں مبتلا تھیں اس کے خلاف یہ بد دعا تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: بخار کو بر بھلا مت کہو۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بخار کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا؛ کیوںکہ یہ اللہ تعالی کے افعال میں سے ہے اور ہر وہ شے جو اللہ کے افعال میں سے ہو، اسے برا بھلا کہنا انسان کے لیے جائز نہیں ہے۔ کیوںکہ اسے برا بھلا کہنا دراصل اسے تخلیق کرنے والے کو برا بھلا کہنا ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمانے کو برا بھلا مت کہو؛ کیوںکہ اللہ ہی زمانہ ہے۔" چنانچہ انسان کو جب کوئی مصیبت لاحق ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے اور اللہ سے اجر کا امید وار رہے۔ "یہ بخار بنی آدم کے گناہوں کو ایسے صاف کر دیتا ہے، جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو صاف کردیتی ہے۔" مراد یہ ہے کہ بخار کا مرض برائیوں کا کفارہ اور رفع درجات کا سبب بنتا ہے۔ جیسے جب لوہے کو آگ پر تپایا جائے تو میل کچیل اور گندگیاں الگ ہوجاتی ہیں اور صاف ستھرا لوہا باقی رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی بخار بنی آدم کے صغیرہ گناہوں کو دور کردیتا ہے، یہاں تک کہ وہ ان سے صاف ستھرا ہوجاتا ہے۔ شرح رياض الصالحين لابن عثيمين(6/467)