البحث

عبارات مقترحة:

المليك

كلمة (المَليك) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعيل) بمعنى (فاعل)...

القيوم

كلمةُ (القَيُّوم) في اللغة صيغةُ مبالغة من القِيام، على وزنِ...

المهيمن

كلمة (المهيمن) في اللغة اسم فاعل، واختلف في الفعل الذي اشتقَّ...

عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ کے ساتھ نکلے۔ ہمارا موضوع سخن حج ہی تھا۔ جب سرف کے مقام پر پہنچے، تو میرے ایام شروع ہو گئے۔ (اس اثنا میں) رسول اللہ میرے (حجرے میں) داخل ہو ئے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پو چھا: "تمھیں کیا رلا رہا ہے؟" میں نے جواب دیا: اللہ کی قسم ! کاش میں اس سال حج کے لیے نہ نکلی ہوتی! آپ نے پو چھا: "تمھا رے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کہیں تمھیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟" میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فر ما یا: "یہ چیز تو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے۔ تم تمام کا م ویسے کرتی جاؤ جیسے (تمام) حا جی کریں، مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ، بیت اللہ کا طواف نہ کرو"۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: جب میں مکہ پہنچی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ (رضوان اللہ عنھم اجمعین) سے فر مایا: " تم اسے (حج کی نیت کو بدل کر) عمرہ کر لو"۔ چنانچہ جن کے پاس قربانیاں تھیں، ان کے علاوہ تمام لوگ حلال ہو گئے۔ (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) بیان کرتی ہیں: قربانیاں (صرف) رسول اللہ ، ابو بکر، عمر اور(بعض) اصحاب ثروت صحابہ (رضوان اللہ عنھم اجمعین) (ہی) کے پاس تھیں۔ جب وہ (ترویہ کے دن منی کی طرف) چلے تو (حج) کا تلبیہ پکارا۔ (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا: جب قربانی کا دن آیا، تو میں پاک ہو گئی۔ چنانچہ رسول اللہنے مجھے حکم دیا اور میں نے طواف (افاضہ) کر لیا۔ انھوں نے (مزید) کہا: ہمارے پاس گا ئے کا گو شت لا یا گیا، میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو (لا نے والوں) نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول نے اپنی بیویوں کی طرف سے گا ئے کی قر بانی دی ہے۔ جب (مدینے کے راستے منیٰ کے فوراً بعد کی منزل) محصب کی رات آئی، تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! لو گ حج اور عمرہ (دونوں) کر کے لو ٹیں اور میں (صرف) حج کر کے لوٹوں؟ تو آپ نے (میرے بھائی) عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا اور انھوں نے مجھے اپنے اونٹ پر ساتھ بٹھایا۔ وہ کہتی ہیں: مجھے یا د پڑ تا ہے کہ میں (اس وقت) نو عمر لڑکی تھی، (راستے میں) میں اونگھ رہی تھی اور میرا منہ (بار بار) کجا وے کی پچھلی لکڑی سے ٹکرا رہا تھا، حتیٰ کہ ہم تنعیم پہنچ گئے۔ پھر میں نے وہاں سے اس عمرے کے بدلے جو لوگوں نے کیا تھا، (اور میں اس سے محروم رہ گئی تھی) عمرے کا (احرا م باند ھ کر) تلبیہ پکا را۔

شرح الحديث :

حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کا مفہوم: "خرجنا مع رسول الله لا نَذْكُرُ إلا الحج"۔ (ہم رسول اللہ کے ساتھ نکلے۔ ہمارا موضوع سخن حج ہی تھا) یعنی مدینہ سے۔ آپ مدینے میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھنے کے بعد نکلے تھے۔ سنیچر کا دن تھا اور ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے عصر کی نماز دو رکعت پڑھی تھی۔ "لا نَذْكُرُ إلا الحج" (ہم حج کا ہی ذکر کر رہے تھے۔) اور ایک روایت میں ہے: "لا نَرَى إلا الحج" (ہمارا ارادہ صرف حج کا تھا۔) جب کہ ان سے ایک اور صحیح حدیث میں اس طرح آیا ہے: "فمنَّا من أهَلَّ بِعمرة، ومنَّا من أهَلَّ بحج، وكنت ممن أَهَلَّ بِعمرة" (ہم میں سے کچھ عمرہ کا تلبیہ کہہ رہے تھے اور کچھ حج کا اور میں عمرہ کا تلبیہ کہہ رہی تھی۔) اس طرح ان کے یہ اقوال: "لانَذْكُرُ إلا الحج" (ہم حج کا ہی ذکر کر رہے تھے) اور: "لا نَرَى إلا الحج" (ہمارا ارادہ صرف حج کا تھا۔) مندرجہ ذیل احوال میں سے کسی ایک حالت سے خالی نہیں: پہلی حالت: اصل میں اس سے ان کی مراد فریضۂ حج ہے۔ اس قسم کا بیان نہیں جس کا انھوں نے احرام باندھا تھا۔ دوسری حالت: اس سے ان کی مراد گھر سے نکلتے وقت اور میقات پر پہنچ کر احرام باندھنے سے پہلے تک کا حال بیان کرنا ہے۔ تیسری حالت: ان کے علاوہ دیگر صحابہ کا حال بیان کرنا مقصود ہو گا۔ خود ان کے بارے میں نہیں۔ "حتى جِئْنَا سَرِف"۔ (یہاں تک کہ ہم سرف کے مقام تک پہنچ گئے۔) یہ مکہ کے قریب ایک جگہ ہے۔ "فَطَمِثْتُ" یعنی وہ حائضہ ہو گئیں۔ "رسول اللہ میرے (حجرے میں) داخل ہو ئے، تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پو چھا: تمھیں کون سی بات رلا رہی ہے؟ میں نے جواب دیا: اللہ کی قسم ! کاش میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی!) یعنی جب انھیں حیض آ گیا، تو وہ رونے لگیں اور یہ خواہش کرنے لگیں کہ کاش وہ اس سال حج کا ارادہ نہ کرتیں! کیوں کہ ان کا یہ خیال تھا کہ وہ حائضہ ہونے کی وجہ سے حج کےتمام اعمال سے منقطع ہو جائیں گی اور اس وجہ سے بہت بڑی خیر سے محروم رہ جائیں گی۔ " قال: «ما لك؟ لَعَلَّكِ نَفِسْتِ؟ (فرمایا: تجھے کیا ہو گیا ہے؟ کہیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟) یعنی حائضہ تو نہیں ہو گئی؟ میں نے کہا: ہاں! آپ نے فرمایا: «هذا شيء كَتَبه الله على بَنَات آدم» (یہ چیز تو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے۔) یعنی حیض ایک طے شدہ امر ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے بنات آدم کے لیے لکھ دیا ہے، یہ نہ تیرے ساتھ خاص ہے اور نہ تیرے ہاتھ میں کچھ ہے۔ اس لیے رونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ "تم تمام کام ویسے کرتی جاؤ، جیسے (تمام) حاجی کریں، مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ، بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔" رسول اللہ نے انھیں بتادیا کہ حیض مناسک حج کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں اور نہ ہی احرام کے لیے مخل ہے۔ اس لیے دیگر حاجی جو کچھ کریں، تم بھی کرتی جاؤ۔ جیسے وقوف عرفہ و منیٰ، وقوف مزدلفہ اور رمی جمار وغیرہ۔ طواف کے علاوہ دیگر تمام ارکان حج ادا کر سکتی ہیں۔ جب تک پاک ہونے کے بعد غسل نہیں کر لیتیں، طواف کرنے سے اجتناب کریں گی۔ "قالت: فلمَّا قَدمت مكة، قال رسول الله لأصحابه «اجْعَلُوها عُمرة»"۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب میں مکہ پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ (رضوان اللہ عنھم اجمعین) سے فرمایا : " تم اسے (حج کی نیت کو بدل کر) عمرہ کر لو"۔) یعنی نبی کریم جب مکہ پہنچے، تو جو لوگ اپنے ساتھ قربانی نہیں لائے تھے، انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام کو عمرے کا بنا لیں؛ چنانچہ جس نے حج کے لیےاحرام باندھا تھا، لیکن ہدی کا جانور ساتھ نہیں لایا تھا، وہ اپنے احرام کو بدل کر عمرہ کا احرام کر لے۔ وہ طواف کرے، سعی کرے، بال کٹوائے اور حلال ہو جائے۔ صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے: "رسول اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ جس کے پاس قربانی نہیں ہے، وہ حلال ہو جائے۔ ۔ہم نے کہا کہ کس طرح حلال ہو؟ تو آپ نے فرمایا: "مکمل حلال۔" "وہ کہتی ہیں: جن کے پاس قربانیاں تھیں، ان کے علاوہ تمام صحابہ (رضوان اللہ عنھم اجمعین) حلال ہو گئے۔ اور قربانیاں (صرف) رسول اللہ ، ابوبکر، عمر اور(بعض)اصحاب ثروت صحابہ (رضوان اللہ عنھم اجمعین) ہی کے پاس تھیں۔" یعنی جن کے پاس قربانیاں نہیں تھیں، وہ طواف، سعی اور بال کٹوانے کے بعد حلال ہو گئے۔ جب کہ نبی کریم، ابوبکررضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور وہ صحابہ جنھیں اللہ تعالیٰ نے فراوانی سے نوازا تھا، حالت احرام میں باقی رہ گئے؛ کیوں کہ وہ اپنے ساتھ قربانیاں لائے تھے اور قربانی لانے والے کے لیے عمرہ کے بعد احرام اتارنے کی اجازت نہیں ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ کا فرمان ہے: "لولا أني سُقْتُ الهَدْي، لفعلت مثل الذي أمَرْتُكم به" (اگر میں قربانی لے کر نہ آیا ہوتا، تو میں بھی وہی کرتا، جو تمھیں کرنے کا حکم دیا ہے۔) "ثم أهَلُّوا حين راحُوا". (جب وہ (ترویہ کے دن منی کی طرف) چلے تو (حج) کا تلبیہ پکارا۔) یعنی جن لوگوں نے طواف کر لیا، سعی کر لی اور بال کٹوا لیے، انھوں نے ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو یعنی ترویہ کے دن منی کی طرف نکلتے وقت حج کا تلبیہ پکارا۔ "عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب قر بانی کا دن آیا، تو میں پاک ہو گئی۔) یعنی قربانی کے دن حیض سے پاک ہو گئیں۔ یہ دس ذوالحجہ کا دن تھا۔ اس دن کا نام (یوم نحر) قربانیوں کو نحر کرنے کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ "فأمَرَني رسول الله فَأَفَضْتُ".(رسول اللہنے مجھے حکم دیا، تو میں نے طواف افاضہ کر لیا۔) یعنی یوم نحر کو جب حیض سے پاک ہوئیں، تو نبی کریم نے انھیں طواف افاضہ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ اس سے فارغ ہو گئیں۔ "قالت: فَأُتِيَنَا بِلَحم بَقَر، فقلت: ما هذا؟". (ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟) یعنی ان کے اور ان کے ساتھ موجود دیگر عورتوں کے لیے گائے کا گوشت بھیجا گیا، تو انھوں نے اس کے بارے میں پوچھا۔ "فقالوا: أَهْدَى رسول الله عن نِسَائه البَقر"۔ (لانے والوں نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول اللہ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی دی ہے۔) یعنی نبی کریم نے اپنی ہر بیوی کی طرف سے ایک ایک گائے قربانی کی ہے۔ "فلمَّا كانت ليلة الحَصْبَةِ"۔ (جب محصب کی رات آئی) یعنی جب منیٰ سے نکل کرٹھہرنے کی رات آئی۔ یہ ایام تشریق کے بعد والی رات ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا، کیوں کہ حجاج منی سے نکل کر محصب آکر رات گزارتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے: رسول اللہ محصب کی رات کچھ دیر سوئے اور سواری پر بیٹھ کر بیت اللہ آئے اور طواف کیا۔" قلت: يا رسول الله، يرجع الناس بِحَجَّة وعُمرة وأرجع بِحَجَّة؟"۔ (میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! لو گ حج اور عمرہ (دونوں) کر کے لو ٹیں گے اور میں (صرف) حج کر کے لوٹوں گی؟) یعنی وہ مستقل حج اور مستقل عمرہ کر کے لوٹیں گے؛ کیوں کہ انھوں نے حج تمتع کیا تھا اور میں الگ سے عمرہ کیے بغیر ہی لوٹ جاؤں گی؛ کیوں کہ وہ قارن تھیں اور حج قران میں عمرہ ساتھ ہی ہوتا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے: "أيرجع الناس بأجرين وأرجع بأجر؟" (کہ لوگ دو اجر لے کر لوٹیں اور میں ایک ہی اجر کے ساتھ لوٹوں؟) وہ چاہتی تھیں کہ انھیں بھی حج کے علاوہ الگ سے عمرہ کی سعادت نصیب ہو، جیسے دیگر امہات المؤمنین اور صحابہ کو نصیب ہوئی تھی، جنھوں نے اپنے حج کے احرام کو عمرہ کے کے احرام میں بدل لیا، عمرہ مکمل کر کے یوم الترویہ سے پہلے حلال ہو گئے، پھر ترویہ کے دن مکہ سے حج کا احرام باندھا۔ اس طرح انھیں الگ الگ حج اور عمرہ ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ جب کہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا عمرہ حج قران ہی میں شامل تھا۔ چنانچہ واپسی کے دن رسول اللہ نے ان سے فرمایا: تمھارا طواف حج اور عمرہ دونوں کو کافی ہے۔ یعنی دونوں مکمل ہو گئے ہیں اور یہ تیرے لیے کافی ہے۔ لیکن انھوں نے ماننے نے انکار کر دیا اور دیگر لوگوں کی طرح الگ عمرہ کرنے کی خواہش پر مصر رہیں۔ "قالت: فأمر عبد الرحمن بن أبي بكر، فَأَرْدَفَنِي على جَمَلِه". (وہ کہتی ہیں: آپ نے (میرے بھائی)عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا اور انھوں نے مجھے اپنے اونٹ پر ساتھ بٹھایا) یعنی نبی کریم نے میرے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ مجھے تنعیم لے جائیں؛ تاکہ میں وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر آؤں؛ تاکہ باقی لوگوں کی طرح مجھے بھی الگ عمرے کی سعادت نصیب ہوجائے۔ چنانچہ انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پیچھے سوار کر لیا جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے۔ "قالت: فإني لأذْكُر، وأنا جَارية حَدِيثَةُ السِّن، أَنْعَسُ فيُصِيب وجْهِي مُؤْخِرَة الرَّحْل" (وہ کہتی ہیں: مجھے یاد پڑتا ہے، میں اس وقت نو عمر لڑکی تھی، (راستے میں) اونگھ رہی تھی اور میرا منہ (بار بار) کجاوے کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا تھا۔) یعنی جب عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے پیچھے سوار کیا اور تنعیم کی طرف چلے تو راستے میں شدید اونگھ کی وجہ سے ان کا سر ادھر ادھر گرتا اور کجاوے سے ٹکرا جاتا۔ "حتى جِئْنَا إلى التَّنْعِيم، فَأَهْلَلْتُ منها بِعُمْرة؛ جزاء بِعُمْرَة الناس التي اعْتَمَرُوا". (حتیٰ کہ ہم تنعیم پہنچ گئے۔ پھر میں نے وہاں سے اس عمرے کے بدلے جو لوگوں نے کیا تھا (اور میں اس سے محروم رہ گئی تھی) عمرہ کا احرام باندھا۔) یعنی جب وہ مقام تنعیم پہنچ گئے، تو انھوں نے وہاں سے مستقل عمرہ کے لیے احرام باندھا، اس عمرہ کے بدلے میں جو لوگ پہلے ہی کر چکے تھے۔ صحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم نے ان کے عمرے کی ادائیگی کے بعد فرمایا: "یہ تمھارے اس عمرے کے بدلے میں ہے۔" یعنی یہ عمرہ اس عمرے کی جگہ ہے، جو تم حج سے الگ مستقل طور پر کرنا چاہتی تھی اور حیض کی وجہ سے کر نہیں پائی تھی۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية