السبوح
كلمة (سُبُّوح) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فُعُّول) من التسبيح،...
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "ہمیں تمام انسانوں پر تین اعتبار سے فضیلت دی گئی ہے: ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی رکھی گئی ہیں، ساری زمین کو ہمارے لیے مسجد بنا دیا گیا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں اس کی مٹی کو ہمارے لیے حصول طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے"۔ آپ ﷺ نے ایک اور خصلت کا بھی ذکر فرمایا۔
اس حدیث میں اس امت کے مقام ومرتبے اور بعض امتیازی خصوصیات کی بنا پر باقی امتوں پر اس کی فضیلت کا بیان ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "ہمیں تمام انسانوں پر تین اعتبار سے فضیلت دی گئی"۔ یعنی تمام سابقہ امتوں پر اللہ تعالی نے ہمیں تین خصلتوں کے ساتھ فضیلت بخشی۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ اس امت کی خصوصیات صرف تین تک محدود ہیں، کیوں کہ آپ ﷺ پر اس امت کی خصوصیات کا نزول درجہ بدرجہ ہوتا تھا اور ان کے نازل ہونے پر جو بات مناسب ہوتی، اس کے بارے میں آپ ﷺ بتادیا کرتے تھے۔ "ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی مانند رکھی گئیں"۔ وہ اس طرح کہ نماز میں ہم ایسے کھڑے ہوتے ہیں، جیسے فرشتے اپنے رب کےحضور کھڑے ہوتے ہیں، بایں طور کہ وہ پہلے اگلی صف کو پورا کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد والی صفوں کو اور صف میں باہم جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ سنن ابوداود اور دیگر کتب ِحدیث میں اس کی تصریح آئی ہے کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا): "کیا تم اس طرح سے صفیں نہیں باندھوں گے، جیسے فرشتے اپنے رب کے حضور صف بستہ ہوتے ہیں؟"۔ ہم نے پوچھا: "یا رسول اللہ! فرشتے اپنے رب کے حضور کیسے صف بستہ ہوتے ہیں؟ "۔آپ ﷺنے فرمایا: "پہلے وہ پہلی صفوں کو پورا کرتے ہیں اور صف میں باہم مل کر کھڑے ہوتے ہیں"۔ سابقہ امتیں ایسے نہیں کرتی تھیں، بلکہ وہ لوگ جیسے بھی ہو تے، نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ "ساری زمین کو ہمارے لیے مسجد بنا دیاگیا اور اس کی مٹی کو ہمارے لیے حصول طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا"۔ یعنی اللہ تعالی نے زمین کی تمام جگہوں کو نماز کے لیے موزوں قرار دے دیا۔ چنانچہ نمازی جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے، وہیں نماز ادا کر سکتا ہے اور لوگوں کو سہولت اور آسانی کے پیش نظر کسی جگہ کو نماز کی ادائیگی کے لیے مخصوص نہیں کیا گیا، بخلاف سابقہ امتوں کے۔ وہ لوگ صرف اپنے گرجا گھروں اور کلیساؤں میں نماز پڑھتے تھے۔ اسی لیے مسند احمد میں اس حدیث کی کچھ روایات میں آیا ہے کہ: "مجھ سے پہلے والے لوگ اپنے گرجا گھروں میں نماز پڑھتے تھے"۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: "کوئی بھی نبی اس وقت تک نماز نہ پڑھتا جب تک کہ وہ اپنے محرابِ عبادت تک نہ پہنچ جاتا"۔ تاہم اس حدیث کے عموم کی ان مقامات کے ساتھ تخصیص کی گئی ہے، جن میں نماز پڑھنے سے شارع علیہ السلام نے منع فرمایا ہے، جیسے غسل خانہ، قبرستان، اونٹوں کے باڑے اور ناپاک جگہیں۔ "اور اس کی مٹی کو ہمارے لیے حصولِ طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا"۔ یعنی تیمم کی طرف منتقل ہونےکے لیے پانی کا نہ ملنا شرط ہے۔ اس کی دلیل بھی قرآن میں ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ” فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا “ (النساء: 43) ”ترجمہ: اورتمھیں پانی نہ ملے، تو پاک مٹی کا قصد کرو“۔ اس پر علما کا اجماع ہے۔ جس شخص کو پانی کے استعمال سے کوئی ضرر پہنچتا ہو، اس کا بھی وہی حکم ہے، جو اس شخص کا ہے، جسے پانی دستیاب نہ ہو۔ "اور آپ ﷺ نے ایک اور خصلت کا بھی ذکر فرمایا"۔ ما قبل گزرنے والی عبارت میں دو خصلتوں کا بیان ہے؛ کیوں کہ زمین کے بارے میں جو آیا کہ وہ مسجد ہے اور حصول طہارت کا ذریعہ ہے، یہ دونوں ایک ہی خصلت شمار ہوتی ہیں، جب کہ تیسری خصلت کا یہاں بیان نہیں ہے۔ اس کا ذکر سنن نسائی کی روایت میں ہے، جو اسی راوی یعنی ابو مالک سےمروی ہے، جو مسلم شریف کی اس حدیث کا بھی راوی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "مجھے سورۂ بقرہ کی یہ آخری آیات عرش تلے موجود خزانے سے دی گئی ہیں، جس میں سے نہ تو مجھ سے پہلے کسی کو کچھ دیا گیااور نہ ہی میرے بعد کسی کو اس میں سے دیا جائے گا"۔