الواحد
كلمة (الواحد) في اللغة لها معنيان، أحدهما: أول العدد، والثاني:...
ابوہریرہ - رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "دو چیزیں جو لعنت کا سبب بنتی ہیں ان سے بچو۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! وہ دو چیزیں کون سی ہیں جو لعنت کا سبب بنتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو لوگوں کے راستوں یا ان کی سایہ دار جگہوں پر قضائے حاجت کرے۔"
دو ایسی باتوں سے پرہیز کرو جن کی وجہ سے لوگ لعنت کرتے ہیں بایں طور کہ جو ان کو کرتا ہے اسے عموماً بُرا بھلا کہا جاتا ہے اور اس پر لعنت کی جاتی ہے یعنی عموماً لوگ انھیں کرنے والے کو لعنت ملامت کرتے ہیں۔ چنانچہ اس وجہ سے لعنت کو ان دو باتوں کی طرف منسوب کیا گیا۔ ان سے مراد لوگوں کی گزر گاہوں اور ان کی سایہ دار جگہوں میں قضائے حاجت کرنا ہے۔ یہ ایسا ہی جیسا کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے کہ: (وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ). [الأنعام: 108]۔ ترجمہ: اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیوں کہ پھر وه براهِ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔ یعنی تم اس بات کا سبب بنو گے کہ وہ اللہ کو برا بھلا کہیں کیوں کہ تم نے ان کے معبودوں کو برا بھلا کہا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے باپ یا ماں کو گالی دے۔ صحابہ کرام نے پوچھا کہ: کیا کوئی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے!؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: " ہاں۔آدمی کسی اور شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے۔ جواباً وہ بھی اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے۔" چنانچہ یہ ایسے ہی ہو گیا کہ گویا اس نے اپنے ہی باپ کو گالی دی کیوں کہ وہی اس کا سبب بنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "الذي يتخلَّى في طريق النَّاس"۔ یعنی ایسی جگہوں پر پیشاب پاخانہ کرتا ہے جہاں لوگوں کا گزر ہوتا ہے اور جہاں ان کا آنا جانا رہتا ہے۔ اس عمل کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں، چاہے ایسا حالت اقامت میں ہو یا دورانِ سفر، کیوں کہ ایسا کرنے سے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا) [الأحزاب : 58]۔ ترجمہ: اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وه (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ تاہم اگر راستہ غیر آباد ہو تو اس پر قضائے حاجت میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ اب حرمت کی علت باقی نہیں رہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "أو في ظِلِّهم" یعنی کسی ایسی سایہ دار جگہ پر قضائے حاجت کرے جہاں لوگ دوپہر کو قیام کرتے ہوں اور پڑاؤ ڈالتے ہوں۔ تاہم ویران علاقوں میں موجود جگہیں جہاں لوگوں کا آنا جانا نہیں ہوتا، ان میں قضائے حاجت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیوں کہ یہاں بھی علت نہیں پائی جاتی اس لیے کہ آپ ﷺ خود کھجوروں کے جھنڈ میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھے جو سایہ دار تھا۔