البحث

عبارات مقترحة:

الحافظ

الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحافظ) اسمٌ...

البر

البِرُّ في اللغة معناه الإحسان، و(البَرُّ) صفةٌ منه، وهو اسمٌ من...

الرءوف

كلمةُ (الرَّؤُوف) في اللغة صيغةُ مبالغة من (الرأفةِ)، وهي أرَقُّ...

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: "میں نے ایک آدمی کو جنت میں چلتے پھرتے دیکھا، اس نے اس درخت کو کاٹ دیا تھا جو راستے کے درمیان میں تھا اور مسلمانوں کو تکلیف دیتا تھا۔'' ایک اور روایت میں ہے: "ایک آدمی ایک درخت کی ٹہنی کے پاس سےگزرا جو راستے کے درمیان میں تھی۔ اس نے (اپنے دل میں) کہا: اللہ کی قسم! میں اسے مسلمانوں سے دور کر دوں گا (تاکہ) انھیں تکلیف نہ پہنچائے۔ چنانچہ اسے (اس عمل کی وجہ سے) جنت میں داخل کردیا گیا۔" ایک اور روایت میں ہے: "ایک دفعہ ایک آدمی راستے پر چل رہا تھا، اس نے راستے پرایک کانٹے دار شاخ دیکھی، اس نے اسے پیچھے کردیا۔ اللہ نےا س کے اس عمل کی قدر فرمائی اوراس کو بخش دیا۔"

شرح الحديث :

ان مذکورہ احادیث میں راستے میں پڑی تکلیف دہ شے کو ہٹانے کی فضیلت کا بیان ہے چاہے وہ تکلیف دہ شے کوئی درخت ہو یا پھر کوئی کانٹے دار ٹہنی یا کوئی ایسا پتھرہو جس سے ٹھوکر کھا کر گرا جا سکتا ہو یا گندگی ہو يا پھر کوئی مردار وغیرہ ہو۔ راستے سے تکلیف دہ چيز کو ہٹانا ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں اس کا ذکر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ: (لقد رأيت رجلاً يتقلب) یعنی میں نے اسے جنت میں گھومتے پھرتے اور مزے کرتے ہوئےدیکھا۔ (في شجرة) یعنی درخت کی وجہ سے اور اس کے سبب سے۔ (قطعها من ظهر الطريق)۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ اس کا معنی ہے: راستے سے درخت کو ہٹانے اور اسے دور کرنے کی وجہ سے وہ جنت کی نعمتوں اور لذتوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ (كانت تؤذي الناس) یعنی لوگوں کو اس سے تکلیف ہو رہی تھی۔ ملا علی القاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث میں کسی بھی طریقے سے نقصان دہ چیز کو ختم کرنے اور اس کا ازالہ کرنے میں مبالغہ کا پتہ چلتا ہے۔ا۔ھ۔ اسی طرح یہ حدیث ہر اس چیز کی فضیلت سے خبردار کرتی ہے جو مسلمانوں کو نفع بخشے اور ان سے نقصان کو دور کرے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية