الكبير
كلمة (كبير) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل، وهي من الكِبَر الذي...
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ: ’’بے شک زمانہ پلٹ کر اسی حالت پر آگیا جیسا اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں تین مسلسل؛ ذوالقعدہ ، ذوالحجہ، محرم، اور (چوتھا) رجب مُضَرْ جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔ (آپ ﷺ نے پوچھا بتاؤ) یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے جواب دیا کہ: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ اس پر خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگا کہ آپ ﷺ اسے کوئی اور نام دیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟‘‘ ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں (یہ ذوالحجہ ہی ہے)۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ’’یہ کون سا شہر ہے؟‘‘ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپﷺ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہم گمان کرنے لگے کہ آپ ﷺ اس کا نام تبدیل کر کے کوئی اور نام رکھیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا یہ بلدہ نہیں ہے؟" ہم نے جواب دیا: کیوں نہیں (یہ بلدہ ہی ہے)۔ پھر آپ ﷺ نے دریافت کیا؟ ’’یہ کون سا دن ہے؟‘‘ ہم نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔اس پر آپﷺ خاموش ہو گئے۔ یہاں تک کہ ہمیں خیال گزرا کہ آپ ﷺ اس دن کا نام تبدیل کرکے کوئی اور نام رکھیں گے۔ آپ ﷺ نے پوچھا ’’کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟‘‘ ہم نے جواب دیا کہ کیوں نہیں (یہ یوم النحر ہی ہے)۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاریں جانیں، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے لیے ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس شہر میں اور اس مہینے میں تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔ عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ خبردار! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنا شروع کر دو۔ خبردار! یہاں موجود شخص غیر موجود تک یہ پیغام پہنچا دے۔کیونکہ بعض وہ لوگ جنہیں کوئی بات پہنچائی جائے اس بات کو سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔ کیا میں نے (احکامِ الہی کو) پہنچا دیا۔ کیا میں نے (احکام الہی کو) پہنچا دیا؟‘‘ ہم نے جواب دیا: ہاں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اے اللہ! تم گواہ رہنا‘‘۔
نبی ﷺ نے یوم النحر کو خطبہ دیا۔ یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا۔ نبی ﷺ نے خبر دی کہ اس سال میں اتفاقاً ’نسئ‘ اللہ عزّ و جلّ کی طرف سے مقررہ حرمت والے مہینوں کے موافق ہو گئی ہے۔ کیونکہ جاہلیت میں انہیں بدل دیا گیا تھا جب کہ لوگ نسئ کا طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے حرمت والے مہینے کو حلال کر دیتے اور حلال مہینے کو حرمت والا قرار دے دیتے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ مہینوں کی تعداد بارہ ہے جو کہ یہ ہیں: محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادی الاول، جمادی الثانی، رجب، شعبان، رمضان، شوال، ذو القعدہ، ذو الحجہ۔ یہ مہینے کل بارہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس وقت سے اپنے بندوں کے لیے مہینے قرار دے رکھا ہے جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے ہیں جن میں سے تین تو مسلسل آتے ہیں اور ایک الگ سے آتا ہے۔ تین مسلسل آنے والے مہینے ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے جن میں لڑنا حرام ہے اور نہ ہی ان میں یہ جائز ہے کہ کوئی کسی پر ظلم و زیادتی کرے۔ کیونکہ یہ مہینے لوگوں کے بیت اللہ کی طرف حج کے لیے جانے کے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حرمت والا قرار دیا تاکہ ان مہینوں میں جب کہ لوگ بیت اللہ کی طرف رواں دواں ہوں قتال نہ ہو۔ یہ اللہ عزّ و جلّ کی خاص حکمت ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: "اور رجب مُضَرْ جو جمادی الثانی اور شعبان کے مابین ہے"۔ یہ چوتھا حرمت والا مہینہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ اس میں عمرہ کیا کرتے تھے اور انہوں نے رجب کے مہینے کو عمرہ کے لیے اور تین مہینوں کو حج کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ چنانچہ یہ مہینہ بھی حرمت والا ہو گیا جس میں قتال کرنا حرام ہے جیسا کہ یہ ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم میں حرام ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ یہ کون سا شہر ہے؟ یہ کون سا دن ہے؟ آپ ﷺ نے ان سے یہ باتیں انہیں متوجہ اور چوکنا کرنے کے لیے پوچھیں کیونکہ معاملہ بہت بڑا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ نبی ﷺ کا مہینے کے بارے میں پوچھنا انہیں بعید از امکان معلوم ہو رہا تھا جب کہ آپ ﷺ کو اس کا بخوبی علم تھا کہ یہ ذو الحجہ ہے۔ تاہم ادب کے تقاضے کے تحت انہوں نے یہ نہ کہا کہ یہ ذو الحجہ کا مہینہ ہے کیونکہ یہ بات سب کو معلوم تھی۔ بلکہ ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہوں نے یہ کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے۔ کیونکہ انسان جب بول کر چپ ہو جائے تو لوگ متوجہ ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ نبی ﷺ خاموش ہو گئے۔ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ جب ہمیں یہ گمان ہونے لگا کہ آپ ﷺ اس کا نام تبدیل کر کے کوئی اور نام رکھ دیں گے تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ ذو الحجہ نہیں؟ لوگوں نے جواب دیا: کیوں نہیں، یہ ذو الحجہ ہی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا: یہ کون سا شہر ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں؟ وہ جانتے تھے کہ یہ مکہ ہے تاہم رسول اللہ ﷺ کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہوں نے یہ نہ کہا کہ یا رسول اللہ! یہ بات تو سب کو معلوم ہے، آپ اس کے بارے میں کیونکر پوچھ رہے ہیں؟ بلکہ اس کے بجائے انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ لوگوں کو گمان ہونے لگا کہ آپ ﷺ اس کا نام تبدیل کر کے کوئی اور نام رکھ دیں گے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: کیا یہ بلدہ نہیں؟ بلدہ مکہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔لوگوں نے جواب دیا: کیوں نہیں، یہ بلدہ ہی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا: یہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں جیسا کہ انہوں نے پہلے سوال کے جواب میں کہا تھا۔آپ ﷺ نے پوچھا: کیا یہ یوم النحر نہیں؟ انہوں نے جواب دیا: یا رسول اللہ! کیوں نہیں، یہ یوم النحر ہی ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ مکہ حرام ہے، ذو الحجہ کا مہینہ بھی حرام ہے اور یوم النحر بھی حرام ہے۔یعنی یہ سب حرمت والے اور محترم ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری جانیں، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے لیے ایسے ہی حرمت والی ہیں جیسے تمہارے اس دن کی اس شہر میں اس مہینے میں حرمت ہے۔ آپ ﷺ نے ان تینوں یعنی جانوں، اموال اور عزتوں کے حرام ہونے پر زور دیا کہ یہ سب حرام ہیں۔ "الدماء" کے لفظ میں جانیں اور اس سے کمتر سب اشیاء آتی ہیں۔ اموال میں کم اور زیادہ سب قسم کے اموال آتے ہیں۔ عزتوں (کی پامالی) میں زنا، لواطت اور تہمت سب گناہ آتے ہیں اور شاید غیبت اور گالم گلوچ بھی اس میں شامل ہیں۔ مسلمان پر حرام ہے کہ وہ اپنے بھائی کی ان تین اشیاء کی حرمت کو پامال کرے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: " خبردار! میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔" کیونکہ مسلمان اگر ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگیں تو وہ کافر ہو جاتے ہیں اس لیے کہ مسلمان کے خون بہانے کو صرف کافر ہی حلال سمجھتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ موجود لوگ غیر موجود لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں۔ یعنی جو بھی آپ ﷺ کے سامنے موجود تھا اور جس نے آپ ﷺ کا خطبہ سنا وہ باقی امت تک اسے پہنچا دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بسا اوقات جس تک بات پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والے سے زیادہ بات کو ذہن نشین رکھتا ہے۔ اس دن جو لوگ موجود تھے انہیں یہ رسول اللہ ﷺ کی وصیت تھی اور اسی طرح قیامت تک کے لیے ہر اس شخص کو یہ وصیت ہے جو آپ ﷺ کی حدیث کو سنے۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں نے پہنچا دیا؟ کیا میں نے پہنچا دیا؟ آپ ﷺ صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھ رہے تھے۔ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں یعنی آپ نے (احکام دین کو) پہنچا دیا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’اے اللہ! تو گواہ رہ‘‘۔