العليم
كلمة (عليم) في اللغة صيغة مبالغة من الفعل (عَلِمَ يَعلَمُ) والعلم...
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اگر تم مہینے کے تین روزے رکھو، تو تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھا کرو۔ قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ ہمیں ایّامِ بِیض یعنی تیرہویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخ کے روزے رکھنے کا حکم کرتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایّامِ بِیض کے روزے حضر و سفر میں رکھا کرتے تھے۔
ابو ذر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "إذا صمت"، يا أبا ذر، اے ابو ذر!جب تم روزے رکھو۔ حدیث کے الفاظ "من الشهر" یعنی کوئی بھی مہینہ ہو، "ثلاثا" یعنی تین دنوں تک تم نفلی روزے رکھنا چاہو۔ "فَصُمْ ثلاث عشرة، وأربع عشرة، وخمس عشرة" یعنی مہینے کی تیرہویں تاریخ اور اس کے بعد دو دن کا روزہ رکھا کرو۔ ان تین ایام کو ایام بیض اس لیے کہتے ہیں کہ ان سے مراد روشن راتوں کے دن ہیں، اس لیے کہ یہ راتیں چاند کی وجہ سے روشن ہوتی ہیں۔ ان دونوں کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایامِ بیض میں افطار نہیں کیا کرتے تھے۔ ایّامِ بیض یعنی روشن راتوں کے دن، یہ تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں راتیں ہیں، اس لیے کہ ان راتوں میں چاند رات کے ابتدا سے انتہا تک روشن رہتا ہے، بنابریں ان میں اللہ کے شکر کے طور پر روزہ رکھنا مناسب ہے، حدیث کے الفاظ ''في حضر ولا سفر" یعنی آپ ﷺ نے سفر اور حضر دونوں میں روزوں کا اہتمام کیا۔ ان میں روزے رکھنا سنتِ مؤکدہ ہے، آپ ﷺ مہینے میں ایامِ بیض کے روزوں کو ترجیح دیتے، اس لیے کہ یہ مہینے کے درمیان کے روزے ہیں اور کسی بھی چیز کا درمیانی حصہ سب سے معتدل ہوتا ہے۔ دیکھیے: فتح الباری (4/227)، مرقاة المفاتيح (4/566)، فيض القدير (1/395)، دليل الفالحين (7/72)۔