الغفور
كلمة (غفور) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعول) نحو: شَكور، رؤوف،...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ان کی اولاد کی وہ ساری روحیں باہر آ گئیں جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔ پھر ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں کی بیچ میں نور کی ایک ایک چمک رکھ دی، پھر انہیں آدم کے سامنے پیش کیا، تو آدم نے کہا : میرے رب ! کون ہیں یہ لوگ ؟ اللہ نے کہا : یہ تمہاری ذریت (اولاد) ہیں، پھر انہوں نے ان میں ایک ایسا شخص دیکھا جس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کی چمک انہیں بہت اچھی لگی، انہوں نے کہا : اے میرے رب ! یہ کون ہے ؟ اللہ نے فرمایا : تمہاری اولاد کی آخری امتوں میں سے ایک فرد ہے۔اسے داؤد کہتے ہیں : انہوں نے کہا : میرے رب ! اس کی عمر کتنی رکھی ہے ؟ اللہ نے کہا : ساٹھ سال، انہوں نے کہا : میرے رب ! میری عمر میں سے چالیس سال لے کر اس کی عمر میں اضافہ فرما دے، پھر جب آدم (علیہ السلام) کی عمر پوری ہوگئی، ملک الموت ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : کیا میری عمر کے چالیس سال ابھی باقی نہیں ہیں ؟ فرشتے نے کہا کہ وہ تو آپ اپنے بیٹے داؤد (علیہ السلام) کو دے چکے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر آدم (علیہ السلام) نے انکار کر دیا، چنانچہ ان کی اولاد بھی انکاری بن گئی۔ آدم بھول گئے تو ان کی اولاد بھی بھول گئی۔ آدم نے غلطی کی تو ان کی اولاد بھی خطاکار بن گئی‘‘۔
’’جب اللہ تعالی نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ان کی اولاد کی وہ ساری روحیں باہر آ گئیں جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے والا تھا“ یہ ہاتھ کا پھیرنا اور ذریت کا نکالنا اپنی حقیقت پر قائم ہے، اس میں کسی قسم کی تاویل جو اسے اس کے ظاہری معنی سے پھیر دے جائز نہیں جیسا کہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ پھر ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں کی بیچ میں نور کی ایک ایک چمک رکھ دی، پھر انہیں آدم کے سامنے پیش کیا، تو آدم نے کہا : میرے رب! کون ہیں یہ لوگ ؟ اللہ نے کہا : یہ تمہاری ذریت (اولاد) ہیں، پھر انہوں نے ان میں ایک ایسا شخص دیکھا جس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کی چمک انہیں بہت اچھی لگی، انہوں نے کہا: اے میرے رب! یہ کون ہے ؟ اللہ نے فرمایا: یہ داؤد ہیں، انہوں نے کہا: میرے رب! اس کی عمر کتنی رکھی ہے ؟ اللہ نے کہا: ساٹھ سال، انہوں نے کہا: میرے رب! میری عمر میں سے چالیس سال لے کر اس کی عمر میں اضافہ فرما دے۔ پھر جب آدم علیہ السلام کی ساری عمر ختم ہو گئی اور چالیس برس رہ گئے، ان کے پاس موت کا فرشتہ آیا تاکہ ان کی روح قبض کرے، آدم علیہ السلام نے کہا: میری عمر کے چالیس سال ابھی باقی ہیں، اس نے کہا کہ آپ نے یہ چالیس برس اپنے بیٹے داؤد کو دے دیا تھا، آدم علیہ السلام نے انکار کردیا، کیونکہ وہ ابھی عالم ذر ہی میں تھے اور ملک الموت کے آنے کے متعلق انہیں یاد نہ رہا، چنانچہ ان کی اولاد بھی انکاری بن گئی، آدم علیہ السلام بھول گئے، تو ان کی اولاد بھی بھول گئی، آدم نے غلطی کی تو ان کی اولاد بھی خطاکار بن گئی کیونکہ اولاد اپنے باپ کے مشابہ ہوتی ہے۔ لہذا داؤد (علیہ السلام) جن کی عمر چالیس سال تھی اللہ نے ساٹھ سال کردی اور اللہ ہی تمام ہونے والی اور ہو چکی باتوں کو جاننے والا ہے، اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ چیزیں جو رونما نہیں ہوئیں، اگر رونما ہوتیں تو کیسی ہوتیں، اللہ ہی ہے جو جانتا ہے کہ کس کے لیے کتنا ہے، اور اس کے بعد کتنا زیادہ ہونا ہے، فرشتوں کو اس بارے میں کوئی علم نہیں اِلاّ یہ کہ وہ علم جسے اللہ انہیں عطا کر دے، اللہ تعالی ہی ان تمام چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے قبل اور وجود میں آجانے کے بعدجانتا، اسی لیے علما کہتے ہیں جو بھی محو (مٹانا) اور اثبات ہے وہ صرف فرشتوں کے صحیفے میں ہوتا ہے، رہا اللہ سبحانہ وتعالی کا علم تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی ایسی بات رونما ہوتی ہے جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا، اسی لیے اللہ کے علم میں کوئی محو اور اثبات نہیں ہوتا۔