القيوم
كلمةُ (القَيُّوم) في اللغة صيغةُ مبالغة من القِيام، على وزنِ...
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "جو شخص اذان سننے کے بعد یہ دعا کرے: اللَّهُم ربِّ هذه الدَّعْوَة التَّامة، والصَّلاة القَائمة، آتِ محمدا الوَسِيلَة والفَضِيلة، وابْعَثْه مَقَامًا محمودًا الَّذي وعَدْتَه"۔ توقیامت کے دن اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو جائے گی۔
حدیث کا مفہوم: نبی کریم ﷺ فرما رہے ہیں کہ"من قال حين يَسْمَع النِّدَاء"۔ یعنی جو شخص مؤذن کے اذان سے فراغت اور اختتام کے بعد یہ مسنون دعا پڑھے؛ جیسا کہ مسلم نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : "جب تم مؤذن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو، تو ویسے ہی کہو، جیسے وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود بھیجو، پھر میرے لیے اللہ سے وسیلہ مانگو۔" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا مؤذن کے جواب سے فارغ ہونے کے بعد کی جائے گی۔ "الدَّعْوَة التَّامة" یعنی اذان۔ اس کا نام 'دعوت' رکھا گیا ہے؛ کیوں کہ اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ "والتامة" یعنی کامل۔کیوں کہ یہ ایمان کے عقائد؛ ایمان اور رسالت محمدیہ کی تصدیق پر مشتمل ہے۔ اس کے شروع میں تکبیر، اس کے بعد شہادتین جو اسلام کا پہلا رکن ہیں، پھر نماز کی دعوت اور آخر میں تکبیر ہے۔ "والصلاة القائمة" اس کے دو معنی ہیں: 1: وہ نماز جو کھڑی ہونے والی ہے ۔2: ایسا دین جس میں اب کسی تبدیلی اور نسخ کی گنجائش نہیں اور جب تک زمین و آسمان ہیں، تب تک قائم رہنے والا ہے۔ "الوَسِيلَة" وسیلہ اسے کہتے ہیں، جس کے ذریعے کسی کا قرب حاصل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب بندہ جس چیز سے حاصل کرسکتا ہے، وہ عمل صالح ہے۔ البتہ یہاں اس سے مراد جنت میں بلند مرتبہ و درجہ ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کے اندر عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی صراحت موجود ہے۔ اس میں ہے کہ (جب تم مؤذن کی آواز سنو تو ویسے ہی کہوـ ـ ـ ـ ـ پھر میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ کا سوال کرو؛ کیوں کہ یہ جنت میں ایک درجہ ہے، جو اللہ کے بندوں میں سے کسی ایک بندے کے لیے ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں۔) "والفَضِيلة" یہ ساری مخلوق سے فزوں تر ایک مرتبہ ہے۔ اس کے معنی ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوقات پر فضیلت عطا فرما! "وابعثه مقاما محمودا" (ان کو مقام محمود پر پہنچا۔) یعنی قیامت کے دن جب سارے لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے، تو یہ وہ مقام ہو گا جس کی تعریف کی جائے گی۔ مقام محمود: یعنی وہ سارے اعزازات، جو تعریف کے مستحق ہوں۔ یہاں اس سے مراد وہ شفاعت عظمیٰ ہے، جو آپ (قیامت کے دن اللہ کے دربار میں بندوں کے حق میں) فیصلے کے لیے کریں گے اور اس پر سارے پہلے اور بعد والے لوگ آپ کی تعریف کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے روز جب محشر کی ہولناکیاں دراز تر ہوتی چلی جائیں گی اور لوگوں کے لیے کھڑے ہونا مشکل ہو جائے گا، تو وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں؛ تاکہ ان کو اس مشکل سے خلاصی مل جائے۔ لیکن وہ (آدم علیہ السلام) معذرت کر لیں گے۔ پھر لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے، لیکن وہ بھی معذرت کر لیں گے۔ یوں باری باری ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیھم الصلاۃ و التسلیم کے پاس آئیں گے۔ آخر میں لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے۔ آپ ﷺ فرمائیں گے کہ میں ضرور کروں گا۔ چنانچہ آپﷺ سجدہ میں گر پڑيں گے اور آپ کو حمد کے کلمات الہام کیے جائیں گے۔ پھر آپ ﷺ سے کہا جائے گا: اپنا سر اٹھائیے، سوال کیجیے، آپ کو عطا کیا جائے گا۔ چنانچہ آپﷺ سفارش کریں گے اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کے ذریعے وہ پریشانیوں سے نجات پا جائيں گے۔ "الَّذي وعَدْتَه" (جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے) یعنی شفاعت عظمیٰ کا وعدہ، جب اللہ تعالیٰ مخلوقات کے مابین فیصلہ فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا) [ الإسراء: 79 ]. ترجمہ: رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ زیادتی آپ کے لیے ہے، عن قریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا۔ لفظ "عسی" جب قرآن میں آئے، تو واجب کا معنی دیتا ہے۔ "حلَّت له شَفَاعَتِي" (اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو جائے گی۔) یعنی اس کے لیے نبی کریم ﷺ کی سفارش ثابت اور واجب ہو جاۓ گی۔ وہ سفارش کا حق دار اس دعا کی بدولت ہو گا۔ اور قیامت کے دن اس سے فیض یاب ہوگا۔ نبی کریم ﷺ اس کے حق میں بغیر حساب کے جنت کے داخلے کی، بلندی درجات کی یا پھر آگ سے نجات کی سفارش کریں گے۔ "يوم القيامة" یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے، کیوں کہ اس دن بڑے بڑے معاملات انجام پذیر ہوں گے؛ ساری مخلوق اپنی قبروں سے نکل کر وہاں کھڑی ہو گی، بندوں کے خلاف گواہیوں کا دور شروع ہوگا اور لوگ اپنے حق میں فیصلہ سننے کے لیے کھڑے ہوں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔