الرقيب
كلمة (الرقيب) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) بمعنى (فاعل) أي:...
وہ سبب جس کے ذریعہ مقصود تک پہنچا جاتا ہے۔
وسیلہ: اس سے مراد اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والا راستہ ہے، اور اس پاک ذات تک صرف وہی راستہ پہنچا سکتا ہے جسے وہ پسند فرماتا اور اس سے راضی ہوتا ہے۔ یہ وہ فرماں برداریاں اور قولی وفعلی اور ظاہری وباطنی عبادات جیسے نیک کام ہیں، جن میں اخلاص اور اتباعِ رسول اللہ ﷺ کی دونوں شرطیں موجود ہوں۔ توسّل سے مراد ان فرماں برداریوں اور نیک اعمال کے ذریعہ اللہ تعالی کی قربت اختیار کرنا اور اس سے مانگنا ہے۔ توسّل کی دو قسمیں ہیں: 1- شرعی توسل: ہر وہ توسل جس کے جواز پر کتاب اللہ یا سنتِ رسول ﷺ کی کوئی نص دلالت کرے، جیسے اللہ عزّ وجلّ کی طرف اس کی ذات کا، یا اس کے اسمائے حُسنیٰ کا، یا اس کے بلند ترین صفات کا، یا اس کے افعال کا وسیلہ لینا، یا نیک اعمال کا وسیلہ لینا ، یا کسی نیک آدمی کی دعا کا اُس کی زندگی ہی میں وسیلہ لینا اس اُمید پر کہ اللہ اس کی دعا کو (اس کے حق میں) قبول فرمائے گا۔ 2- ممنوع توسل: ایسا توسل جس کے جواز پر کوئی دلیل نہ ہو، یا دلیل پائی جائے لیکن وہ ثابت نہ ہو، یا ایسی ثابت شدہ دلیلیں موجود ہوں جو اس کے برخلاف ہوں، اس کی کئی قسمیں ہیں۔ ان میں سے کچھ قسمیں دوسری قسموں سے زیادہ سخت اور خطرناک ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں: 1- مُردوں اور غائب لوگوں سے دعا اور اُن سے فریاد طلبی اور ان سے ضروریات پوری کرنے اور مصائب وغیرہ کو ٹالنے کا سوال کرنے کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ اختیار کرنا۔ یہ توسل ملت سے خارج کر دینے والا شرکِ اکبر ہے۔ 2-قبروں اور مزاروں کے پاس عبادت جیسے ان کے پاس اللہ سے دعا، ان پر عمارتیں تعمیر کرنا اور چراغاں کر کے اور چادریں چڑھا کر اللہ کا توسُّل اختیار کرنا۔ یہ شرک اصغر ہے اور کمالِ توحید کے منافی عمل ہے، نیز شرکِ اکبر تک لے جانے کا سبب بھی ہے۔ 3- انبیا اور نیکو کار لوگوں کے جاہ ومنصب اور اللہ کے ہاں ان کی قدر ومنزلت کا اللہ کی طرف وسیلہ پکڑنا۔ یہ حرام ہے، بلکہ یہ نئی ایجاد کردہ بدعتوں میں ہے، اس لیے کہ یہ ایسا توسّل ہے جسے اللہ تعالی نے مشروع قرار دیا ہے نہ ہی اس کی اجازت دی ہے۔
وسیلہ اسے کہتے ہیں جس کے ذریعہ دوسرے تک رسائی اور قُربت حاصل کی جائے۔ کہا جاتا ہے: ”وَسَلْتُ إلى اللهِ، أَسِلُ، وأَتَوَسَّلُ“ کہ میں نے اس کی قُربت حاصل کی۔ یہ ’سبب‘ اور ’کسی چیز تک پہنچانے والے راستہ‘ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہ دراصل توسّل سے ماخوذ ہے جس کا معنی: رغبت اور طلب ہے۔