القهار
كلمة (القهّار) في اللغة صيغة مبالغة من القهر، ومعناه الإجبار،...
کسی لفظ سے ایک یا ایک سے زائد الفاظ اخذ کرنا جب کہ ان کے درمیان لفظ اور معنی میں باہمی نسبت ہو۔
اِشتقاق کا معنی ہے کسی لفظ سے ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ بنانا بایں طور کہ مشتق منہ لفظ‘ مشتق (ماخوذ) لفظ پر مشتمل ہو اور اس پر دلالت کرتا ہو۔ چنانچہ مثال کے طور پر ربوبیت کا لفظ ’رب‘ سے مشتق ہے۔ ’رب‘ کے نام میں ربوبیت کا معنی بھی ہے اور اس سے کچھ زائد معنی بھی۔ اللہ کے تمام اسمائے حسنی جیسے العلیم، الرحیم وغیرہ اسی طرح ہیں: اشتقاق کی چار اقسام ہیں: پہلی قسم: اشتقاق صغیر؛ کسی لفظ سے ایک دوسرا لفظ نکالنا بایں طور کہ بناوٹ میں کچھ تبدیلی آئے تاہم ان دونوں کے معنی میں مناسبت قائم رہے اور ان کے حروف اصلیہ اور ان کی ترتیب میں بھی یکسانیت رہے۔ مثلاً ضَرَب لفظ الضَّرْب سے ماخوذ ہے۔ دوسری قسم: اشتقاق کبیر؛ اشتقاق کبیر یہ ہے کہ دو الفاظ کے حروف اصلیہ کے مابین اتفاق ہو اور اس کے ساتھ ساتھ معنی میں بھی مناسبت ہو تاہم ترتیب ایک نہ ہو۔ مثلاً حمد ماخوذ ہے مدح سے۔ تیسری قسم: دونوں لفظوں کے معنی میں باہمی مناسبت ہو اور بعض حروف اصلیہ اور ان کی ترتیب میں بھی اتفاق ہو مثلاً خَرِقَ اور خَرَبَ۔ چوتھی قسم: اشتقاقِ کُبّار؛ دو یا دو سے زائد الفاظ کے بعض حروف سے کوئی لفظ اخذ کرنا۔ اسے ’نَحْتْ‘ کہا جاتا ہے، مثلاً ’بَسمَل‘ یعنی: اس نے بسم اللہ کہا۔
الاشتقاق: کسی شے کی شِق کو لینا۔ ’شِق’ نصف (آدھا) کو کہتے ہیں۔ اشتقاق کا لفظ دراصل ’شَقّ‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے: ’کاٹنا‘۔ اشتقاق کے یہ معانی بھی آتے ہیں: بنانا، نکالنا۔