یقین (الْيَقِين)

یقین (الْيَقِين)


العقيدة أصول الفقه الفقه الثقافة والدعوة

المعنى الاصطلاحي :


کلمۂ توحید کا پوری طرح علم ہونا جس میں شک و شبہ اور تردد کی کوئی گنجائش نہ رہے۔

الشرح المختصر :


الیقین: یہ علم و تصدیق کے بلند و مضبوط ترین مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس کا معنی ہے: ایسا قطعی و مضبوط اعتقاد رکھنا جو واقع کے مطابق ہو اور اس میں کوئی شک نہ ہو۔ ”المُوقِن“ اس عالم کو کہتے ہیں جس کے علم میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ چنانچہ جو شخص یہ جان لیتا ہے کہ ’’لا إلـﮧ إلاَّ اللہ‘‘ کا معنی ہے: اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ اس کے اس علم میں کوئی شک و شبہ نہ آئے اور لازم ہے کہ وہ اس کلمہ توحید کے مدلول و معنی پر ایمان رکھنے میں کسی قسم کے تردد کا شکار نہ ہو اور اس پر فرض ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس کے درست ہونے کا اعتقاد رکھے یعنی اس بات کا اعتقاد کہ اللہ تعالیٰ ہی بندگی کا حق دار ہے اور اللہ عز و جل کے علاوہ کسی اور کا معبود ہونا باطل ہے چاہے وہ جس صورت میں بھی ہو۔ اس شرط کےدلائل میں سے ایک دلیل اللہ سبحانہ و تعالی کا یہ فرمان ہے: [إِنَّما المُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ] ترجمہ: ’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہی سچے لوگ ہیں۔‘‘[الحجرات: 15]

التعريف اللغوي المختصر :


اليقين: عزم اور قطعیت۔ جب کوئی شخص کسی شے کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہہ دے تو کہا جاتا ہے: أَيْقَنَ فُلانٌ بالأَمْرِ، يُوقِنُ، يَقِيناً وإيقاناً۔ اوراس کا معنیٰ پایۂ ثبوت کو پہنچنے اور ایسے علم کے ہیں جس میں کوئی شک نہ ہو۔ اس کے متضاد الفاظ ”شک اور رَیب ہیں۔ اپنی اصل کے اعتبار سے اس کے یہ معانی ہیں: سکون و ظہور یا ثبوت ٹھہراؤ،اور دوام۔