الوتر
كلمة (الوِتر) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل، ومعناها الفرد،...
ہر وہ شخص جس کی ماں یہودی ہو یا اس نے یہودی مذہب اختیار کر لیا ہو اور اس کے رسومات کو اپنی زندگی میں نافذ کر کے ان پر ایمان لے آیا ہو۔
یہود: اس کی نسبت ”يهوذا“ کی طرف ہے جو یعقوب علیہ السلام کا چوتھا لڑکا تھا۔ وہ ابراہیم علیہ السلام کے عبرانی اولاد کے دین کے پیروکار ہیں۔ انہیں یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں اسباط کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے ان کی طرف موسی علیہ السلام کو تورات دے کر بطورِ نبی مبعوث فرمایا۔ یہودی موسی مندلسون (1729 - 1786 ء) کے زیر قیادت جرمنی میں اصلاح پسند تحریک کے ابھرنے سے پہلے اس بات پر اتفاق تھا کہ يہود ایک مذہبی جماعت ہے جو قومی خصوصیات سے مبرا ہے۔ یعنی یہودی ماضی میں ایک خاص قسم میں محصور تھے بایں طور کہ یہودی کے لیے یہ لازمی تھا کہ اس کی ماں یہودی ہو تاکہ اس کی نسل اسحاق اور یعقوب کے بیٹوں کی جانب لوٹے جو ان کے جانشینوں کے لیے مقدس عہد کے حاملین ہیں۔ جیسا کہ ابتدا میں یہ کلمہ جغرافیائی تاریخ کی اہمیت کا پتہ دے رہا تھا کیونکہ یہ صرف جنوبی ریاست کی آبادی (یہوذا) کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ لیکن اس کلمہ کی دلالت وسیع ہوکر تمام یہودیوں کوشامل ہوگئی،خاص طور پراس وقت جب کہ شمالی سلطنت (اسرائیل) کی آبادی آشوریوں کی ہجرت (اور زوال) کے بعد ختم ہونے لگی اور تاریخ کے اسٹیج سے ان کے لاپتہ ہوجانے اوریہوذا کی دو صدیوں تک بادشاہی تسلسل کے مستمر ہونے کے بعد۔ چنانچہ لفظ ’يهودي‘ ہر اس شخص کا نام ہو گیا جس نے یہودیت کو اپنا لیا ہو خواہ وہ کسی بھی وقت، اور کہیں بھی ہو اس کے نسلی یا جغرافیائی وابستگی سے قطع نظر کرتے ہوئے۔ اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر ایک ٹائٹل یہودیوں کی عام تاریخ میں ایک مخصوص تاریخی مدت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یہود: یہ کلمہ ’ھَوْد‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی توبہ اور رجوع کرنے کے ہیں، کہا جاتا ہے ’’هادَ، يَهودُ، هوداً، وتَـهوَّدَ ‘‘ یعنی اس نے توبہ کی اور حق کی طرف لوٹ آیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ عربی لفظ نہیں ہے بلکہ اس کی نسبت بنی اسرائیل کے ایک قبیلہ ’یہوذا‘ کی طرف ہے۔