اہلِ اجتہاد، اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے۔ (أَهْلُ الاجْتِهادِ)

اہلِ اجتہاد، اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے۔ (أَهْلُ الاجْتِهادِ)


أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


ایسے علماء جن میں وہ تمام شرطیں پائی جائیں جو شرعی احکام کو ان کے دلائل سے اخذ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

الشرح المختصر :


اہلِ اجتہاد سے مراد دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے وہ لوگ ہیں جن میں شریعت کے عملی احکام کو ان کے مصادر سے اخذ کرنے کی صلاحیت پائی جائے۔ اس تعریف سے ہر وہ شخص نکل جاتا ہے جو شرعی احکام سے واقف تو ہو لیکن اس میں یہ قابلیت نہ ہو کہ وہ دلائل سے ان کا استنباط کر سکے۔ ایسے شخص کو مجتہد نہیں کہا جائے گا۔ اجتہاد کی شرائط میں سے کچھ تو عام ہیں جیسے عقل، بلوغ، اسلام اور عدالت جب کہ کچھ شرائط خاص ہیں جیسے غور وفکر کی صلاحیت ہونا اور اجتہاد کے طریقوں، استنباط کے قواعد اور اس کے ذرائع کا علم ہونا جیسے قرآن و سنت، لغت اور اصول فقہ وغیرہ سے واقف ہونا۔ اہلِ اجتہاد کی چار قسمیں ہیں: اول: مجتہدِ مطلق۔ اس سے مراد وہ عالم ہے جو بذاتِ خود دین کے احکام کو شرعی دلائل سے اخذ کرسکتا ہو نیز قواعد وعلمی اصول کو مستنبط کر سکتا ہو جیسے امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ وغیرہ۔ دوم: کسی امام کے مذہب کو اختیار کرنے والا مجتہد (مجتہد فی المذہب)۔ اس سے مراد وہ مجتہد ہے جو اس امام کے فتاوی جات، اقوال اور اصول سے واقفیت رکھتا ہے تاہم نہ تو حکم میں اپنے امام کا مقلد ہوتا ہے اور نہ ہی دلیل میں۔ سوم: کسی امام کے مذہب کو اختیار کرنے والا مجتہد جو اس امام کے اقوال اور فتاوی سے تجاوز نہیں کرتا اور نہ ان کی مخالفت کرتا ہے۔ چہارم: کسی امام کے مذہب میں مجتہد جو اس کے فتاوی کا حافظ ہوتا ہے اور اس نے اپنے آپ پر ہر اعتبار سے اس کی تقلید کرنا لازم ٹھہرا لیا ہوتا ہے۔