الظاهر
هو اسمُ فاعل من (الظهور)، وهو اسمٌ ذاتي من أسماء الربِّ تبارك...
وہ صفات جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے متعلق ہیں اور مشیت کے مطابق متجدد ہوتی رہتی ہیں۔
صفاتِ فعلیہ: یہ وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیئت سے متعلق ہوتی ہیں؛ اگر وہ چاہے تو انہیں کر لے اور اگر چاہے تو نہ کرے۔ اس کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ: یہ وہ صفات ہیں جو اپنے موصوف کے ساتھ قائم و لازم نھیں ہوتی ہیں، یا یہ وہ صفات ہیں جو ذات سے الگ ہوتی ہیں، جیسے عرش پر مستوی ہونا، آسمانِ دنیا پر نزول فرمانا، آنا، رضا، محبت وغیرہ۔ فعلی صفات جس شے سے متعلق ہوتی ہیں اس سے تعلق کے اعتبار سے ان کی دو قسمیں ہیں: 1۔ متعدی صفات: وہ فعلی صفات جو دوسرے تک متعدی ہوتی ہیں جیسے خلق (پیدا کرنا)، رزق (روزی دینا)، إحياء (زندہ کرنا)، إماتة (موت دینا) اور تدبیر کی دیگر انواع۔ 2۔ لازمی صفات: وہ فعلی صفات جو ذاتِ الٰہی سے متعلق ہوں، جیسے کلام، نزول، اور استواء علی العرش وغیرہ۔ بعض اوقات ایک ہی صفت دو مختلف اعتبارات سے ذاتی اور فعلی دونوں ہوتی ہے، جیسے صفتِ کلام ہے۔ چنانچہ یہ اپنے اصل کے اعتبار سے ذاتی صفت ہے، اس لیے کہ اللہ تعالی ہمیشہ سے متکلم ہے۔ اور آحادِ کلام کے اعتبارسے یہ ایک فعلی صفت ہے کیوں کہ کلام کا تعلق اللہ کی مشیت سے ہے۔ وہ جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ فعلی صفات کی ایک اور اعتبار سے بھی دو قسمیں بنتی ہیں۔ 1۔ صفاتِ فعلیہ خبریہ: یہ وہ صفات ہیں جو صرف نقلی دلیل (یعنی کتاب و سنت) سے ثابت ہوتی ہیں،اور اگر ان کے بارے میں نص نہ آئی ہوتی تو عقل کے ذریعے ان تک رہنمائی پانا اور ان کی معرفت حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ تاہم اس کے باوجود عقل ان کی نفی نہیں کرتی۔ جیسے استواء، نزول، مجیء (آنا) وغیرہ۔ 2۔ صفاتِ فعلیہ عقلیہ: یہ وہ صفات ہیں جن کا ادراک عقل کے ذریعے ممکن ہے اور ان سے متعلق نص بھی آئی ہو۔ اگر ان کے بارے میں نص نہ آتی تب بھی عقل کے ذریعے ان کا ادراک ہوجاتا۔ جیسے خلق، احياء ، اماتہ اور رزق۔ محققین نے وضاحت کی ہے کہ فعلی صفات نوع کے اعتبار سے قدیم اور آحاد کے اعتبار سے حادث ہیں۔