اعجازِ لغوی، لغوی اعجاز۔ (الإِعْجَازُ الْلُغَوِي)

اعجازِ لغوی، لغوی اعجاز۔ (الإِعْجَازُ الْلُغَوِي)


علوم القرآن

المعنى الاصطلاحي :


قرآنِ مجید کا یہ اعلان کرنا کہ پوری انسانیت فقط ایک ایسی سورت بھی لانے سے قاصر ہے جو قرآن کے الفاظ و معانی اور اس کے اسلوب وغیرہ کا مقابلہ کر سکے۔

الشرح المختصر :


(اعجازِ قرآنی کے متعدد پہلو ہیں لیکن) ان میں سب سے واضح اور بنیادی پہلو اعجازِ لغوی کا ہے، جس وقت قرآنِ کریم کا نزول ہوا عربوں کو اپنى زبان دانى اور فصاحت وبلاغت پر بڑا ناز تھا، گو دوسرے علوم وفنون، صنعت کاریوں اور غیبیات وغیرہ میں ان کا کوئی خاص مقام نہیں تھا، لہذا عین مناسب تھا کہ انہیں قرآنى فصاحت وبلاغت کى مقابلہ آرائی کے لیے للکارا جاتا، جس کى انہیں سخت ضرورت اور خواہش بھی تھى، کیوں کہ انھوں نے نبی کو جھٹلا دیا تھا اور اس بات پر ایمان لانے سے انکار کر دیا تھا کہ جو باتیں نبی -صلى الله عليه وسلم- سناتے ہیں وہ اللہ کا نازل کردہ کلام ہے۔ قرآنِ کریم نے انہیں عربی زبان کے سارے فنون میں مقابلہ کى دعوت دى ہے خواہ اس فن کا تعلق لفظ کے حسن وجمال اور فصاحت سے ہو، اسلوب کى دلکشی اور اس کى آسانی سے ہو، اندازِ بیاں کى کشادگی اور شگفتگی سے ہو، یا پھر معانی کى بلندی اور عمدگی سے، اور یہ اعجازی پہلو قرآنِ کریم کى ہر سورت بلکہ ہر آیت میں شامل ہے، اور اس اعجاز کو ’اعجازِ بلاغی‘، ’اعجازِ لفظی‘ اور ’اعجازِ بیانی‘ بھی کہا جاتا ہے۔