الباطن
هو اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (الباطنيَّةِ)؛ أي إنه...
کسی شے کی حقیقت کا ظاہری و باطنی طور پر پوری طرح ادراک کرنا۔
’اِحاطہ‘ کا معنی ہے ’کسی شے کا ہر طرف سے ادراک کرنا‘۔ ’الـمُحِيطُ بِالشَّيْءِ‘ سے مراد وہ ہے جو اس شے کے وجود، اس کی صفت اور اس کی کیفیت کو جانتا ہو۔ اور یہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو سکتا ہے: إحاطہ کی دو قسمیں ہیں: 1۔ منفی احاطہ : یہ مخلوق کا احاطہ ہے۔ چنانچہ بندوں کے لیے اللہ تعالی کی صفات و افعال اور اس کی ذات کا ظاہری و باطنی طور پر پوری طرح سے ادراک کرنا ممکن نہیں ہے، نہ تو حسی اعتبار سے اور نہ ہی علم کے اعتبار سے۔ یعنی آنکھیں اللہ جل وعلا کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ اس میں حسی احاطے کی نفی ہے۔ اور نہ ہی وہ پوری طرح سے اللہ کی صفات کا ادراک کرسکتے ہیں۔ اس میں علمی احاطے کی نفی ہے۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مانند کوئی چیز نہیں ہے، اور اس لیے کہ وہ بڑا، وسعت وعظمت والا ہے۔ جب روز قیامت انسان اپنے رب کی طرف دیکھے گا تو اس دیکھنے سے ادراک و احاطہ کا حصول نہیں ہوگا۔ 2۔ مثبت احاطہ: اس سے مراد خالق (اللہ تعالیٰ) کا ہر شے کا احاطہ کرنا ہے۔ یہ اللہ کی صفت ہے۔ اس سے مراد صفات کا احاطہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ مخلوق کا علم، قدرت، غلبے، عظمت، وسعت اور ملکیت کے اعتبار سے احاطہ کیے ہوئے ہے۔ پس اللہ تعالی ہر شے کو محیط ہے اور ہر شے سے بالا ہے۔
الإحاطَةُ: کسی شے کو گھیر لینا اور ہر طرف سے اس پر حاوی ہوجانا۔ کہا جاتا ہے: ”أَحاطَ بِالعَدُوِّ، يُحِيطُ، حَوْطًا وإِحاطَةً“ اس نے دشمن کو گھیر لیا اور چہار جانب سے اس کا احاطہ کر لیا۔ إحاطہ کا حقیقی معنی ہے: ’’کسی شے کے اطراف و جوانب کو ملانا اور اس شے کو درمیان میں کرلینا‘‘۔