السلام
كلمة (السلام) في اللغة مصدر من الفعل (سَلِمَ يَسْلَمُ) وهي...
پسندیدہ تین صدیوں کے بعد آنے والا ہر وہ شخص جس نے اہل بدعت اور خواہشات کے لوگوں کا راستہ اختیار کیا۔
’خَلَف‘: ہر وہ شخص جو سلف کے زمانے کے بعد آیا ہو۔ سلف سے مراد پسندیدہ تین صدیوں کے لوگ ہیں، جو کہ رسول اللہ ﷺ کی صدی، صحابہ رضی اللہ عنہم کی صدی اور تابعین رحمہم اللہ کی صدی ہے۔ بعض علماء نے قرون مفضلہ کی تحدید 225 ہجری سے کی ہے۔ خلَف کی دو قسمیں ہیں: 1- خلَف فاسد (برے جانشین): یہ لفظ ’سلَفْ‘ کے مقابلے میں بولا جاتا ہے۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو کسی بدعت سے متہم ہو یا کسی ناپسندیدہ لقب سے مشہور ہو۔ لہٰذا جو شخص قرآن وسنت سے منحرف ہوگیا، اور صحابہ کرام کے طریقے سے ہٹ گیا، چنانچہ اسے اپنا طریقۂ کار نھیں بنایا، تو وہ ’خَلَفیّ‘ ہے، اگرچہ وہ صحابۂ کرام کے درمیان رہا ہو۔ خلف میں سے وہ اہلِ بدعت اور اہلِ اہوا بھی ہیں جو عقائد کے باب میں نبی ﷺ اور صحابۂ کرام کے طریقے سے منحرف ہوگئے، جیسے خوارج، روافض اور وہ اہلِ کلام (متکلمین) جنھوں نے عقل کو نصوصِ شرعیہ پر مقدّم قرار دیا، جیسے جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ، قدریہ اور مرجئہ وغیرہ۔ ’خلَف لوگ‘ اس تسمیہ کا اقرار بھی کرتے ہیں، بلکہ ان میں بہت سے لوگ اتنے جری ہوتے ہیں کہ وہ ’خلَف‘ کے مذہب کو ’سلَف‘ کے مذہب پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا طرزِ عمل یہ ہے کہ اپنے حقائق سے ہٹے ہوئے نصوص کے معانی کو کئی اقسام کے امکانات اور نامانوس لغات کے ذریعے نکالتے ہیں۔ 2- خَلَف صالح (اچھے جانشین): وہ لوگ جو نبیﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقہ پر چلے، انہیں سلَفی بھی کہا جاتا ہے، یعنی یہ منہج سلف پر ہیں، پس ہر وہ شخص جس کا زمانہ سلف کے زمانے کے بعد آیا ہو لیکن علم اور عمل میں وہ سلف کے منہج اور ان کے طریقہ کو لازم پکڑا ہوا ہو وہ انہیں میں سے ہے۔
الخَلَف: بعد میں آنے والا، ہر وہ شخص جو کسی دوسرے کے چلے جانے کے بعد آئے، خواہ اس کا بعد میں آنا زمانے کے لحاظ سے ہو یا مرتبے کے لحاظ سے۔ کہا جاتا ہے: ”فُلانٌ خَلَفٌ لِأَبِيِهِ“ کہ فلاں اپنے والد کے بعد آیا ہے۔ خَلَف کی ضد سَلَف ہے، جس کا معنی ہے ہر وہ شخص جو آپ سے پہلے گذر چکا۔