دور (چکر) (الدَّوْر)

دور (چکر) (الدَّوْر)


العقيدة أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


کسی شے کا وجود خود اپنے وجود پر موقوف ہونا خواہ کسی واسطہ سے ہو یا بغیر واسطہ کے ہو۔

الشرح المختصر :


’دور‘ یہ ہے کہ کسی شے کا وجود خود اپنے اوپر موقوف ہو، خواہ کسی واسطہ سے ہو۔ اس کو ’دورِ مضمر‘ (پوشیدہ دور) کہتے ہیں۔ جیسے زید کا وجود بکر کے وجود پر موقوف ہو اور بکر کا وجود سالم کے وجود پر موقوف ہو اور سالم کا وجود زید کے وجود پرموقوف ہو۔ یا ’دور‘ اگر بغیر واسطے کے ہو، تو اس کو ’دور مُصَرَح‘ کہتے ہیں۔ جیسے زید کا وجود بکر کے وجود پرموقوف ہو اور بکر کا وجود زید کے وجود پرموقوف ہو۔’دور‘ کی دو قسمیں ہیں۔ پہلا دور:’ دور قَبلی‘:مثلاً یہ کہنا کہ یہ شے فلاں چیز کے بعد ہی ہوگی،اور وہ فلاں چیز اس شے کے بعد ہی ہوگی۔ اہل عقل کا اتفاق ہے کہ یہ ’دور‘ ناممکن ہے، کیونکہ شے کاخود اپنے اوپر مقدم ہونا لازم آتا ہے۔ دوسری قسم:’دور معیت مقارن‘: مثلاً یہ کہنا کہ یہ نہیں ہوگا مگر اس کے ساتھ، نہ اس سے پہلے ہوگا اور نہ اس کے بعد ہوگا۔ دور کی یہ قسم جائز ہے۔جیسے یوں کہا جائے: بیٹے کے بغیر باپ ممکن نہیں۔

التعريف اللغوي المختصر :


الدَّوْرُ: کسی شے کے اردگرد گھومنا، کسی شے کے گِرد چکرلگانا۔ جب کوئی کسی شے کے ارد گرد گھومے تو کہا جاتا ہے: دَارَ يَدُوْر۔ اس کا اصل معنی ہے کسی شے کے اطراف گردش کرنا اور اس کا احاطہ کرنا۔ ’دور‘ کا ایک معنیٰ شے کا اپنی سابقہ حالت وکیفیت پر لوٹنا بھی ہے۔