روافض (اثناعشری شیعہ)
(الرَّافِضَة)
من موسوعة المصطلحات الإسلامية
المعنى الاصطلاحي
ایک فرقہ جو اہل بیت سے تشیع رکھتا ہے اور ان سے محبت کا دعوے دار ہے، ابو بکر الصدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما اور بجز چند صحابہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی صحابہ سے براءت کا اظہار کرتا، ان کی تکفیر کرتا اور انھیں سب وشتم کا نشانہ بناتا ہے۔
الشرح المختصر
’رافضہ‘ شیعہ کے گروہوں میں سے ایک گروہ ہے، انہیں ’امامیہ‘، ’اثنا عشری‘ اور ’جعفریہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں ’رافضہ‘ کا نام اس وقت دیا گیا جب زید بن علی سے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ان کے لیے رحمت کی دعا کی۔ (یعنی رحمھما اللہ کہا)۔ اس پر کچھ لوگوں نے ان کا انکار کیا۔ تو زید بن علی نے ان سے کہا: ’’رَفْضْتُمُونِي‘‘ (تم نے میری بات کا انکار کیا ہے)۔ یہیں سے ان کا نام ’رافضہ‘ پڑ گیا کیوں کہ انہوں نے زید بن علی کا رفض (انکار) کیا تھا۔ سب سے پہلے روافض کے عقائد کی جس شخص نے دعوت دی وہ یمن کا ایک یہودی تھا جس کا نام عبداللہ بن سبا تھا۔ پہلے پہل روافض کا ظہور عراق میں ہوا اور پھر یہ پھیل گئے۔ جس ملک میں رافضیت سب سے زیادہ پھیلی وہ ایران ہے۔ روافض کئی مراحل سے گزرے۔ پہلے مرحلے میں عبداللہ بن سبا نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلو کی دعوت دی۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد ان کے عقائد کا ظہور ہونا شروع ہوا اور بعد ازاں یہ کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ ان کا عقیدہ زندیقیت، الحاد اور بت پرستی پر مشتمل ہے۔ ان کے کچھ نمایاں عقائد یہ ہیں: 1۔ ان کا عقیدہ ہے کہ قرآن تحریف شدہ ہے۔ 2۔ چند صحابہ کے علاوہ باقی سب کی تکفیر کرنا، انہیں سب وشتم کرنا اور ان سے بغض رکھنا۔ 3۔ اپنے ائمہ کو خطا اور بھول چوک سے بھی معصوم ماننا چہ جائیکہ معصیت اور برائی سے اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں۔ 4۔ قبروں اور آستانوں کی تعظیم کرنا اور مردوں سے دعا مانگنا۔ 5۔ تقیہ کا قائل ہونا جس سے مراد روافض کے نزدیک یہ ہے کہ اہلِ سنت کے ساتھ جھوٹ اورمنافقت پر مبنی رویہ رکھا جائے۔
التعريف اللغوي المختصر
الرّافِضَةُ: یہ ’رفض‘ کی طرف نسبت ہے جس کا معنی ہے ’چھوڑنا‘۔ اس کی ضد ’قبول‘ اور ’موافقت‘ ہیں۔ اسی سے کہا جاتا ہے: ”رَفَضْتُ الشَّيْءَ“ یعنی میں نے اس شے کو ترک کر دیا اور اسے قبول نہیں کیا۔