المؤخر
كلمة (المؤخِّر) في اللغة اسم فاعل من التأخير، وهو نقيض التقديم،...
شیعہ کے فرقوں میں سے ایک فرقہ جو زید بن علی بن حسین کے پیروکار ہیں، جن کا عقیدہ ہے کہ مرتکبِ کبیرہ مخلد فی النار ہوگا، ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج (بغاوت) جائز ہے اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی امامت (خلافت) صحیح ہے۔
زیدیہ: ایک شیعی فرقہ ہے، اس کی نسبت اس فرقہ کے بانی زید بن علی زین العابدین کی طرف ہے، جو ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی امامت کی صحت کے قائل تھے، اور ان میں سے کسی نے بھی کسی ایک بھی صحابی کی تکفیر نہیں کی۔ ان کے کچھ عقائد یہ ہیں: 1-افضل شخص کی موجودگی میں مفضول شخص کی امامت جائز ہے، کوئی بھی امام معصوم نہیں اور نہ ہی ائمہ کے حق میں نبی ﷺ کی وصیت ثابت ہے۔ یہ لوگ نہ ہی رجعت (یعنی شیعہ کے تمام ائمہ کا دوبارہ زندہ ہو کر حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے) کے قائل ہیں اور نہ ہی امامِ غائب (شیعوں کے مہدی منتظر محمد بن الحسن العسکری) کو مانتے ہیں۔ 2- مؤمنین میں سے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب ہیں وہ مخلد فی النار ہوں گے۔ 3- ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کو جائز قرار دیتے ہیں۔ 4- فاسق امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے۔ 5- اللہ تعالیٰ کی ذات اور اعمال میں اختیار کے بارے میں وہ اعتزال کی طرف مائل ہیں۔ 6- نکاحِ متعہ کے بارے میں عام شیعوں سے اختلاف کرتے ہیں اور اسے ناپسند گردانتے ہیں۔ 7- زکاتِ خمس اور بوقتِ ضرورت تقیہ کے جائز ہونے میں عام شیعوں کے ساتھ متفق ہیں۔ زیدیہ تین ذیلی فرقوں میں بٹ گئے: 1- جارودیہ: یہ ابو الجارود زیاد بن منذر عبدی (متوفی 150 هـ) کے پیروکار ہیں۔ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت ترک کرنے کے دعوی کی بنیاد پر صحابۂ کرام کی تکفیر کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ نبی ﷺ نے وصف کے ذریعہ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی تنصیص کی ہے، تاہم نام لے کر صراحت نہیں کی ہے۔ 2- سُلیمانیہ: یہ سلیمان بن جریر زیدی کے پیروکار ہیں۔ انہیں ’جریریہ‘ بھی کہتے ہیں۔ اس فرقہ کا عقیدہ ہے کہ امامت کی بنیاد شورائیت ہے، اور یہ اچھے مسلمانوں میں سے دو آدمیوں کے عقد سے صحیح ہوجائے گی، نیز مفضول کی امامت بھی صحیح ہو سکتی ہے اگرچہ فاضل شخص ہر حال میں افضل ہے۔ یہ شیخین یعنی ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کی صحت کے قائل ہیں، مگر انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں پیش آنے والے حادثات کی بنیاد پر ان کی تکفیر کی ہے۔ نیز انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے کی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا، زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما کے کفر کے بھی قائل ہیں اور رافضی شیعوں کے ’بَداء‘ اور ’تقیہ‘ کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے ان پر لعن طعن کرتے ہیں۔ 3- بَتْریّہ: یہ کثیرُ الثواب (متوفی 169 ھ تقریباً) جس کا لقب الأبتر تھا، کے پیروکار ہیں۔ امامت کے متعلق ان کا مذہب بھی سلیمانیہ کے مذہب ہی کی طرح ہے، تاہم وہ عثمان رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں وارد نصوص کا ان کی طرف منسوب حادثات سے متعارض ہونے کی وجہ سے اُن کے کفر کے بارے میں توقف اختیار کرتے ہیں، اسی طرح وہ قاتلینِ عثمان کی تکفیر میں بھی توقف کرتے ہیں۔
’زیدیہ‘: زید کی طرف منسوب ہے، اس سے مراد زیدی فرقہ ہے۔ ان کا یہ نام زید بن علی نامی ایک شخص کی طرف نسبت کی وجہ سے پڑا۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".