کفار اور دشمنان اسلام کے ساتھ معاملات نیز حاکم وقت کا اسلامی لشکر کے ساتھ معملات کے احکام (السِّيْرَة)

کفار اور دشمنان اسلام کے ساتھ معاملات نیز حاکم وقت کا اسلامی لشکر کے ساتھ معملات کے احکام (السِّيْرَة)


الحديث السيرة والتاريخ

المعنى الاصطلاحي :


وہ احکام جو امن وجنگ کی حالت میں نبی ﷺ کا اپنے دشمنوں کے ساتھ جو برتاو ہوتا تھا اس کى روشنی میں غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کو استوار کرتے ہیں۔

الشرح المختصر :


السِّيَرُۃ: وہ نظام جو ایسے احکام وقوانین پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں حاکم اپنے اسلامی لشکر نیز کفار خواہ حربی ہوں یا معاہد یا ذمی یا مرتد اور باغی ہوں -جن کا جرم مشرکین کے جرم سے اخف ہے- کے ساتھ معاملہ کرتے وقت اپناتا ہے اور ان جیسے دیگر معاملات جو نبی ﷺ سے مروی ہیں ان کو اپناتا ہے۔ مغازی کو ”سیر“ کہا جاتا ہے اس لیے کہ اس کا پہلا مرحلہ دشمنوں کی طرف چلنے کا ہوتا ہے۔ معاصرین نے سیر کو بین الاقوامى دستور (دستورى قانون) کا نام دیا ہے۔

التعريف اللغوي المختصر :


السِّيَرُة: اس سے مراد طریقہ ہے خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ کہا جاتا ہے: ”سارَ في النّاسِ بِسيرَةٍ حَسَنَةٍ“ یعنی اس نے اچھا طریقہ اپنایا۔ یہ لفظ ”سیر“ سے ماخوذ ہے جس کے معنى چلنے اور گزرنے کے ہیں۔