الغفور
كلمة (غفور) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعول) نحو: شَكور، رؤوف،...
غیب سے مراد وہ شے ہے جو بندوں کے مشاہدہ سے غائب اور پوشیدہ ہو خواہ وہ محسوسات میں سے ہو یا غیر محسوسات میں سے۔
غیب سے مراد ہر وہ شے ہے جو مخلوق سے پوشیدہ ہے جیسے فرشتے، جنت، جہنم اور مستقبل میں واقع ہونے والی علاماتِ قیامت وغیرہ، کیوں کہ عقل ان کی کیفیت کا ادراک نھیں کر سکتی اور نہ تو حواسِ خمسہ کے ذریعے ان کا ادراک ہو سکتا ہے۔ ’غیبیات‘ اسلامی عقیدے کی خصوصیات میں سے ہے اور اس کا معنی: ’’غیب کی خبروں کو تسلیم کرنے کا عقیدہ رکھنا‘‘ہے۔ ’غیب‘ کی دو قسمیں ہیں: اول: غیبِ مطلق یا غیبِ کلی: وہ غیب جس کے علم کو اللہ تعالی نے اپنے لیے خاص کر رکھا ہے اور اسے اپنے تمام مخلوقات سے چھپا رکھا ہے، چنانچہ نہ تو کسی مقرب فرشتے اور نہ ہی کسی نبیِ مرسل کو اس سے آگاہ کیا ہے، جیسے قیامت قائم ہونے کا وقت، جو کچھ ماؤں کے رحم میں ہے، موت کا وقت، رزق اور بارش۔ اسی قسم میں بعض وہ اسمائے حسنی بھی شامل ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ دوم: نسبتاً یا جزوی غیب: جو بعض مخلوق سے غائب و پوشیدہ ہے جب کہ بعض دوسرے سے نھیں، جیسے تاریخی واقعات؛ یہ ان لوگوں کے لیے غیب ہیں جو انھیں نھیں جانتے۔ اس غیب کو جاننے کے کچھ مشروع طریقے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں: انبیا پر آنے والی وحی، اچھے خواب وغیرہ۔ اس غیب کو جاننے کے کچھ ایسے طریقے بھی ہیں جو غیر مشروع ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: کہانت، علم نجوم اور جنات سے مدد لینا، وغیرہ۔
اس کا معنی ہے ’چھپا ہوا‘ اور ’پسِ پردہ‘۔ اسی سے جب سورج چھپ جائے اور اوٹ میں ہو جائے تو کہا جاتا ہے: ”غَابَت الشَّمْسُ، تَغِيبُ، غَيْبَةًوغَيْبُوبَةً“۔ مخفی کو بھی غیب کہتے ہیں۔ غیب کی ضد ’الشھادۃ‘ (موجود ہونا) اور ’الحضور‘ (حاضر ہونا) ہے۔