الحفيظ
الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحفيظ) اسمٌ...
بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی شخص کو کسی لشکر یا سریہ کا امیر مقرر کر کے روانہ فرماتے تو اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور اپنے مسلمان ساتھیوں کے ساتھ خیر و بھلائی کی وصیت کرتے اور فرماتے: ’’اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستہ میں جہاد کرو، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں کےساتھ قتال کرو۔ جہاد کرو لیکن خیانت نہ کرنا، عہد شکنی نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا اور بچوں کو قتل نہ کرنا۔ اور جب مشرک دشمن سے تمہارا آمنا سامنا ہو تو اسے تین میں سے کسی ایک بات کو قبول کرنے کی دعوت دو۔ وہ ان میں سے جس بات کو بھی قبول کر لیں، تم اسے ان کی طرف سے تسلیم کرلو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو۔ سب سے پہلے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرو اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو تم بھی اسے قبول کرلو پھر انہیں اپنے علاقے سے دارالمہاجرین کی طرف منتقل ہونے کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور ان پر وہی احکام لاگو ہوں گے جو مہاجرین پر لاگو ہوتے ہیں۔ اگر وہ ہجرت سے انکار کر دیں (اور اپنے علاقے ہی میں رہنے کو ترجیح دیں) تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی (بدوی) مسلمانوں کی مانند شمار ہوں گے اور ان پر اللہ کا حکم جاری ہوگا، اور مالِ غنیمت و مالِ فے میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد میں شریک ہوں۔ اگر وہ اس سے (یعنی اسلام لانے سے) انکار کر دیں تو انہیں جزیہ دینے کے لیے کہو۔ اگر وہ اسے تسلیم کرلیں تو تم اسے ان کی طرف سے قبول کرلو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو۔ لیکن اگر وہ اس سے بھی انکار کر دیں تو پھر اللہ سے مدد طلب کرو اور ان سے لڑائی شروع کرو۔ اور جب تم کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کرلو اور وہ تم سے اللہ اور اس کے نبی کا ذمہ (امان کا عہد) طلب کریں تو تم انہیں اللہ اور اس کے نبی کا ذمہ (امان کا عہد) نہ دو، بلکہ تم اپنا اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ (امان کا عہد) دو۔ کیوں کہ تمہارا اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہد کو توڑنا اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑنے سے بہت ہلکا ہے۔ اور جب تم کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کرلو اور اس قلعہ والے یہ چاہتے ہوں کہ تم انہیں اللہ کے حکم (فیصلے) پر ہتھیار ڈالنے دو تو تم ایسا نہ کرنا، بلکہ انہیں اپنے حکم (فیصلے) پر ہتھیار ڈالنے دینا، کیوں تمہیں نہیں معلوم کہ اس سلسلے میں تم اللہ کے فیصلے کو پہنچتے ہو یا نہیں۔
بریدہ رضی اللہ عنہ خبردے رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا سریہ (فوجی دستہ) کو کفار سے جہاد کرنے کے لیے روانہ فرماتے تو ان کا ايک امیر مقرر فرماتے جو ان کی وحدت و اجتماع کی حفاظت کرتا اور ان کے معاملات کو درست رکھتا۔ پھر اسے اللہ سے ڈرنے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی وصیت فرماتے، اور ان کی اس بات کی طرف رہنمائی کرتے کہ انھیں دشمنوں کے ساتھ کیسا رویہ اپنانا چاہیے، اور انھیں خیانت، عہد شکنی، مثلہ کرنے اور غیر مکلف لوگوں کو قتل کرنے سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتے، اور انھیں یہ ہدایت دیتے کہ مشرکين کو سب سے پہلے اسلام کی دعوت پیش کریں. اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو انہیں مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی ترغیب دیں اور انہیں بتائیں کہ اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو ان کے لیے وہی حقوق و واجبات ہوں گے جو پہلے ہجرت کرنے والوں کے ہیں، اگر وہ ہجرت سے انکار کر دیں تو ان کے ساتھ دیہاتی مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے گا۔ اگر وہ اسلام لانے سے انکار کردیں تو ان سے جزیہ طلب کریں۔ اگر وہ لوگ جزیہ دینے سے بھی انکار کریں تو اللہ کی مدد کے بھروسے ان سے جہاد و قتال کریں۔ اور اگر وہ کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کریں تو انہیں اللہ کا عہد اور اس کے رسول کا عہد و پیمان نہ دیں، بلکہ انہیں اپنا عہد و پیمان دیں، کیوں کہ اپنے عہد کو توڑنا اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑنے کے مقابلے میں کم گناہ کا باعث ہے۔ اور جب وہ اپنے لیے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے کا مطالبہ کریں تو وہ کسی حکم کے ذریعہ فیصلہ کرکے اسے اللہ کا حکم نہ بنائیں۔ اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے بارے میں اللہ کے حکم کو نہ پہنچ سکیں۔ بلکہ ان کے ساتھ خود اپنے فیصلے اور اجتہاد کے مطابق معاملہ کریں۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".