البارئ
(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا۔ نہ ہی کسی عورت کو، نہ ہی کسی خادم کو۔ اِلاّ یہ کہ آپ جہاد فی سبیل اللہ کر رہے ہوں۔ کبھی ایسے نہیں ہوا کہ آپ ﷺ کو کوئی نقصان پہنچایا گیا ہو اور آپ ﷺ نے اس پر انتقام لیا ہو مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حدود کی خلاف ورزی پر آپ ﷺ اللہ کے لیے انتقام لیا کرتے تھے۔
نبی ﷺ کی اخلاقی صفات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ آپ ﷺ نے کبھی نہ تو جانوروں کو ہاتھ سے مارا تھا اور نہ ہی کسی عورت یا نوکر کو۔اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ عورت یا نوکر کو مارتے ہیں۔باوجود عمومی عادت کے جب آپ ﷺ نے ان دونوں کو نہیں مارا تو معلوم ہوا کہ ان کے علاوہ دوسری اشیاء کو تو بدرجۂ اولی نہیں مارنا چاہیے جنہیں عام طور پر نہیں مارا جاتا۔ تاہم آپ ﷺ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کیا کرتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے آپ ﷺ کو نقصان پہنچایا ہو اور آپ ﷺ نے اس سے انتقام لیا ہو۔ جیسے جنگ احد میں کفار نے آپ ﷺ کے سر مبارک کو زخمی کیا اور آپ کے سامنے کے دندان مبارک شہید کردیے لیکن آپ ﷺ پھر بھی ان کے ساتھ معافی و درگزر اور بردباری ہی کا معاملہ کرتے رہے۔ لیکن جب اللہ کی حدود کی خلاف ورزی ہوتی تھی تو یوں نہیں ہوتا تھا کہ کسی کو آپ ﷺ ایسا کرتے رہنے دیں۔ (بلکہ آپ ﷺ بزور اسے روکتے تھے۔)