الوارث
كلمة (الوراث) في اللغة اسم فاعل من الفعل (وَرِثَ يَرِثُ)، وهو من...
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہيں: زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (اپنی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کی) شکایت لے کر (آپ ﷺکے پاس) آئے، تو نبی ﷺ ان سے فرمانےلگے: "اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو۔" انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر رسول اللہ ﷺ کسی بات کو چھپانے والے ہوتے تو اسے ضرور چھپاتے۔ وہ بیان کرتے ہیں: چنانچہ زینب رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کی ازواج مطہرات پر اپنی فوقیت جتاتے ہوئے کہتی تھیں: تم لوگوں کی تمہارے گھر والوں نے شادی کی اور میری شادى اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے کی ہے۔ ثابت رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہ آیت: (وتُخفي في نفسِك ما اللهُ مُبْدِيهِ وتخشى الناس) "اور آپ اس چیز کو اپنے دل میں چھپاتے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا، اور آپ لوگوں سے خوف کھاتے تھے۔" [الأحزاب: 37] ’’زینب رضی اللہ عنہا اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘
زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی بیوی زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی شكايت لے کر آئے اور انہیں طلاق دینے کے بارے میں آپ ﷺ سے مشورہ طلب کیا۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو بذریعہ وحی اس بات سے مطلع کر دیا تھا کہ عنقریب آپ ﷺ زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کریں گے۔ اللہ نے آپ ﷺ کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع زید رضی اللہ عنہ کے طلاق دینے سے پہلے ہی دے دی تھی۔ جب زید رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پاس ان كی شکایت لے کر آئے اور انہیں طلاق دینے کے بارے میں آپﷺ سے مشورہ طلب کیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: "اے زید! اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو۔" اس پر اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی اپنے اس فرمان کے ذریعہ سرزنش کی: (وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا) (الأحزاب: 37) ترجمہ: "(یاد کرو) جب کہ آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا اور آپ نے بھی کہ تم اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو اور اللہ سے ڈرو اور آپ اپنے دل میں وه بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ﻇاہر کرنے واﻻ تھا اور آپ لوگوں سے خوف کھاتے تھے، حاﻻنکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیاده حق دار تھا کہ آپ اس سے ڈريں، پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی ہم نے اسے آپ کے نکاح میں دے دیا۔" آپ ﷺ جس بات کو چھپا رہے تھے وہ آپ ﷺ کا زینب رضی اللہ عنہ سے نکاح کو ناپسند کرنا تھا اس خوف سے کہ لوگ یہ باتیں کریں گے کہ آپ ﷺ نے اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کر لی۔ ”انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: اگر رسول اللہ ﷺ كو کسی بات کو چھپانا ہوتا تو اس بات کو چھپاتے۔“ یعنی اگر بفرض محال جو شرعاً ممنوع ہےٍ، وحی کی کسی بات کو چھپايا گيا ہوتا تويہی آیت ہوتی، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ شرعاً ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس آیت میں غور و تامل کرنے والے شخص کے لیے رسول اللہ ﷺ کی سچائی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی آپ ﷺ کے دل میں آنے والے لوگوں کے خوف کے بارے میں بتلا رہا ہے، اور اللہ نے جو فرمایا آپ ﷺ نے وہ سب کچھ جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیا حالانکہ اس میں آپ ﷺ پر کی گئی سرزنش کا ذکر ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص کذاب ہوتا ہے وہ ہر اس بات سے گریز کرتا ہے جس میں اس پر کچھ ملامت کا پہلو ہو۔ اللہ تعالی کا فرمان: "عبس و تولی"...الخ اور اس طرح کی دیگر قرآنی آیات اسی قبیل سے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ “زینب رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کی دیگر ازواج مطہرات پر فخر کیا کرتی تھیں”۔ زینب رضی اللہ عنہا اس بات کو بہت اہمیت دیتی تھیں کہ ان کا رسول اللہ ﷺ سے نکاح اللہ کے حکم سے ہوا ہے اور یہ ان کےلیے بہت بڑی فضیلت کی بات ہے اور یہ کہ اس فضیلت کے اعتبار سے آپ ﷺ کی ازواج میں سے کوئی بھی ان کی ہم پلہ نہیں۔ چنانچہ وہ کہا کرتی تھیں: ”تمہارا نکاح تو تمہارے اہل خانہ نے کیا ہے جب کہ میرا نکاح اللہ تعالی نے سات آسمانوں کے اوپر سے کیا ہے۔“ حدیث کے اس قدر حصے میں اس بات کا ثبوت وبيان ہے کہ ایمان والوں کے نزدیک اللہ کی ذات بلند وبرتر ہے۔ یہ تمام مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے نزدیک مسلمہ بات ہے ماسوا ان لوگوں کے جن کی فطرت ہی بگڑ چکی ہو۔ ہراس مسلمان کے نزدیک جس کی فطرت میں کجی نہ ہو، یہ سمعی و عقلی اور فطری اعتبار سے ثابت شدہ صفات میں سے ہے۔ زینب رضی اللہ عنہ کا کہنا کہ: ”میرا نکاح اللہ نے کرایا“ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو اپنے اس فرمان: ”فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا“ کے ذریعے ان سے نکاح کرنے کا حکم دیا اور آپ ﷺ کے ساتھ ان کا نکاح کرانے کی ذمہ داری اللہ نے لی۔