نواقض الوضوء
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابۂ کرام عشاء کی نماز کا یہاں تک انتظار کرتے کہ غلبۂ نیند کی وجہ سے ان کے سرجھُک جاتے، پھر وہ از سرِ نو وضو کئے بغیر نماز پڑھتے۔  
عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: كان أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على عَهدِه ينتظرون العشاء حتى تَخْفِقَ رُءُوسُهُمْ, ثم يصلُّون ولا يَتَوَضَّئُونَ.

شرح الحديث :


نبی کريم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ميں صحابۂ کرام عشاء کی نماز کا انتظار کرتے کرتے سو جاتے پَر گہری نیند نہ سوتے، پھر بغیر وضو کیے نماز پڑھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی نے کوئی کام کيا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس پر نکیر نہ فرمائى تو اسے اقرار سمجھا جاتا ہے۔ اور اقرار بھی سنت نبوی کا ايک روپ (قسم) ہے جو قول، یا فعل یا تقريرپر مشتمل ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو کام کیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نکیر نہ فرمائیں تو اسے تقریری سنت (حدیث) شمار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر ان کی نماز باطل ہوتی یا ان کا یہ فعل جائز نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس پرمتنبہ فرماتے۔ اس لیے کہ یا تو آپ کو اس کے باطل ہونے کے علم ہوتا یا بذريعۂ وحی آپ کو بتلادیا جاتا۔ بر خلاف اس کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہو۔ "تَخْفِقَ رُءُوسُهُمْ " یعنی اونگھ کے غلبے کی وجہ سے ان کے سر جھُک جاتے۔ ايک دوسری روايت ميں ہے: "حتى إني لأسمع لأحدهم غطيطا، ثم يقومون فيصلون ولا يتوضئون" صحابی فرماتے ہیں کہ یہاں تک کہ میں کسی کے خرّاٹوں کی آواز سنتا، پھر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور وضو نہ کرتے۔ ايک اور روایت میں ہے " يضعون جنوبهم، ثم يصلُّون ولا يَتَوَضَّئُونَ" کہ صحابۂ کرام اپنے پہلؤوں کو (زمين پر) رکھ لیتے تھے، پھر وضو کیے بغیر نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے، كيونکہ ان کی نیند گہری نہیں ہوتی تھی، اور دوسرے اس لیے کہ اگر ان کی نیند سے وضو ٹوٹتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس پر برقرار نہ رکھتے۔ دلائل کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے ہم نے يہ بات کہی ہے۔ کيونکہ یہ بات ثابت ہے کہ نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے بول وبراز سے ٹوٹ جاتا ہے جيسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”ولكن من غائط وبول ونوم“ (لیکن پیشاب، پاخانہ اور نیند سے)۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جیساکہ علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: ''آنکھ کا کھلا رہنا دبر كا بندھن ہے، لہٰذا جو سو جائے وہ وضو کر لے۔'' نیزمعاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت ميں ہے کہ: ''آنکھ کا کھلا رہنا دبر كا بندھن ہے، جب آنکھيں سو جاتى ہيں تو بندھن ڈھيلا ہوجاتا ہے۔'' ان دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ جب کہ باب كى حديث اور اس کے ساتھ جو دوسری روايتيں ہیں، اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ چنانچہ اسی کے پیشِ نظر باب كى حديث اور "الغطيط ووضع الجُنوب" (خراٹے اور پہلو رکھنے ) والی روایت کی تاویل کی جائے گی کہ یہ نیند اتنی گہری نہیں تھی جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ کيونکہ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنی ابتدائی نیند میں خرّاٹے لیتا ہو, اور پہلو رکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ نیند گہری ہو، جیسا کہ یہ بات ظاہر ہے۔ اس طرح تمام دلائل یکجا ہوجاتے ہیں اور ان سب پر عمل ہوجاتا ہے۔ اور جب دلائل کے درميان تطبيق ممکن ہو، تو یہ بعض روایات کو چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔ خلاصۂ كلام يہ ہے کہ جب انسان سو جائے اور اس کی نیند اتنی گہری ہو جائے کہ وه پوری طرح سے شعور وادراک کوکھو دے، تواس کے لیے وضو کرنا لازم ہے۔ اور اگر نیند گہری نہ ہو تو وضو کرنا لازم نہیں ہوگا۔ اگرچہ احتیاطاًعبادت کے لیے بہتر اور محتاط رویہ يہی ہے کہ وہ وضو کرلے۔ اور اگر کسی کو شک ہو کہ آیا اس کی نیند گہری تھی یا نہیں؟ تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اس لیے کہ اصل طہارت کا باقی رہنا ہے اور یقین شک سے ختم نہیں ہوتا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ نیند جس میں شک ہو کہ آیا اس میں ہوا خارج ہوئی ہے یا نہیں؟ اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اس لیے کہ طہارت (پاکی) یقین کے ساتھ ثابت ہے، اوریقین شک کى وجہ سے ختم نہیں ہوتا۔ مجموع فتاوى شيخ الإسلام(21/394) سبل السلام(1/88 ، 89) فتح ذي الجلال والإكرام(1/238) توضيح الأحكام (/282 ، 283) تسهيل الإلمام(1/170، 171)  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية