آداب الطريق والسوق
ابو طلحہ زید بن سہل - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ ہم لوگ کھلی جگہوں میں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے، آپ ﷺ تشریف لائے اور کھڑے ہو کر فرمایا: ”تم لوگوں کو کیا ہوا ہے جو راستے میں مجلسیں جمائے بیٹھے رہتے ہو؟ راستوں میں مجلسیں جمانے سے بچو“۔ ہم نے عرض کیا ہہم کسی نقصان کی غرض سے نہیں بیٹھے، ہم بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر بیٹھنا ہی ہے تو راستہ کا حق آنکھیں نیچی کر کے اور سلام کا جواب دے کر اور اچھی گفتگو سے ادا کرو“۔  
عن أبي طلحة زيد بن سهل -رضي الله عنه- قال: كُنَّا قعودا بالأفْنِيَةِ نتحدَّث فيها فجاء رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقام علينا، فقال: «ما لكم ولمجالس الصُّعُدَاتِ؟ اجتنبوا مجالس الصُّعُدَاتِ». فقُلنا: إنما قَعَدْنَا لغير ما بأس، قَعَدْنَا نتذَاكَر، ونتحدث. قال: «إما لا فأدُّوا حقَها: غَضُّ البَصَر، وردُّ السلام، وحُسْن الكلام».

شرح الحديث :


ابو طلحہ - رضی اللہ عنہ - بتا رہے ہیں کہ وہ گھر کے صحن میں بیٹھے تھے۔ فِنَاء گھر کے قریب کھلی جگہ کو کہتے ہیں، اس میں بیٹھ کر اپنے معاملات کے بارے میں باتیں کررہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور ہمیں راستوں میں بیٹھنے سے منع فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا " إنما قَعَدْنَا لغير ما بأس، قَعَدْنَا نتذَاكَر، ونتحدث " یعنی اے اللہ کے رسول ﷺ ہم یہاں کسی غیر شرعی کام کے لیے نہیں بیٹھے، بلکہ جائز کام کے لیے بیٹھے ہیں، یہاں بیٹھ کر ہم اپنے خصوصی معاملات کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا " إما لا فأدُّوا حقَها " یعنی اگر تم ان مجلسوں کو چھوڑ نہیں سکتے تو ان کا حق ادا کرتے رہو۔ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں " إن أبيتم إلا المجلس فأعطوا الطريق حقه " اور ایک اور روایت کے الفاظ ہیں " سألوه وما حقُّ الطريق " یعنی صحابہ نے پوچھا کہ راستے کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نظریں جُھکانا، سلام کا جواب دینا اور اچھی بات کرنا۔ دوسری روایت میں ہے: نظریں جُھکانا، تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم کرنا اور بُرائی سے روکنا۔ مطلب یہ کہ اگر تمہیں لامحالہ راستوں میں بیٹھنا ہی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کرنا تمہارے اوپر لازم ہے۔ آپ ﷺ نے ان کے سامنے راستوں میں بیٹھنے سے ممانعت کا سبب بتلایا کہ راستوں میں بیٹھنے سے بسا اوقات انسان کو فتنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے عورتوں کا سامنے آنا اور انہیں دیکھنے کا خوف اور اس کی وجہ سے فتنے میں پڑنا، اسی طرح اللہ اور مسلمانوں کے ایسے حقوق کا پیش ہونا جن کی ادائیگی گھر میں ہونے کی صورت میں لازم نہیں آتی، کیونکہ وہ اکیلا ہوتا ہے یا اپنی ضروری کاموں میں مشغول ہوتا ہے، ان کُھلے راستوں میں بُرائیوں پر بھی نظر پڑے گی، اس وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اگر اسے چھوڑے گا تو اللہ کی نافرمانی لازم آئے گی۔ اسی طرح گزرنے والے کو سلام کرنا بھی لازم آئے گا، بسا اوقات لوگوں کی کثرت کی وجہ سے بیٹھنے والا سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے عاجز ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوگا اور انسان کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ فتنوں سے بچے اور ان میں پڑنے سے اپنے آپ کو بچائے، اس لئے کہ اپنے نفس پر ان چیزوں کو لازم نہ کرے جن کا حق ادا کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية