فضائل السور والآيات
ابو سعید رافع بن المعلی - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے کہا کہ مسجد سے نکلنے سے پہلے کیا میں تمہیں قرآنِ کریم کی سب سے بڑی سورت نہ بتاؤ؟ آپ نے مجھے ہاتھ سے پکڑا، جب ہم نے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے کہا تھا کہ میں تمہیں قرآنِ کریم کی سب سے بڑی سورۃ بتاؤں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ سورۂ’’الحَمْدُ للهِ رَبِّ العَالَمِينَ‘‘ہے، جو سبع مثانی ہے اور قرآنِ کریم جو مجھے دیا گیا ہے(اُس کا خلاصہ ہے)۔  
عن أبي سعيد رافع بن المعلى -رضي الله عنه- قال: قال لي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «أَلاَ أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ في القُرْآن قَبْلَ أنْ تَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِد؟» فَأخَذَ بِيَدِي، فَلَمَّا أرَدْنَا أنْ نَخْرُجَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إنَّكَ قُلْتَ: لأُعَلِّمَنَّكَ أعْظَمَ سُورَةٍ في القُرْآنِ؟ قالَ: «الحَمْدُ للهِ رَبِّ العَالَمِينَ، هِيَ السَّبْعُ المَثَانِي وَالقُرْآنُ العَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ».

شرح الحديث :


ابو سعید رافع بن المعلی - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ مجھے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا۔ "ألا" یہ لفظ مخاطب کو ما بعد والی بات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے آتا ہے۔ "أعلمك أعظم سورة في القرآن قبل أن تخرج من المسجد"، آپ ﷺ نے ابتداءً نہیں بتایا بلکہ یہ جملہ کہا، اس لیے کہ یہ اسلوب ان کے ذہن میں بات ڈالنے اور ان کو اس طرف متوجہ کرنے کے زیادہ مناسب تھا۔ "فأخذ بيدي" پس آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا، یعنی یہ کہنے کے بعد جب ہم چلنے لگے، "فلما أردنا أن نخرج قلت: يا رسول اللّه إنك قلت: لأعلمنك أعظم سورة في القرآن " "قال: الحمد للّه ربّ العالمين"، یعنی سورہ فاتحہ قرآنِ کریم کی سب سے بڑی سورت ہے، یہ اس لیے کہ اس میں قرآنِ کریم کے تمام مقاصد جمع ہیں، اسی وجہ سے اسے اُمُّ القرآن کہتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ کے نبی ﷺ نے سورۃ فاتحہ کو " سبعِ مثاني" کا نام دے کر اسے باقی تمام سورتوں سے ممتاز کیا بلکہ اس کو ان سب میں سے بڑی سورت قرار دیا۔ ’مثاني‘ مثناة کی جمع ہے اور مثناة تثنیۃ سے ہے، اس لیے کہ یہ نماز کی ہر رکعت میں بار بار پڑھا جاتا ہے یا اس لیے کہ اس کے ساتھ دوسری سورت ملا کر اسے تثنیہ بنایا جاتا ہے یا اس کو ’مثاني‘ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ دو قسموں پر مشتمل ہیں ثناء اور دعاء یا اس لیے کہ اس میں الفاظ کی فصاحت اور معانی کی بلاغت دونوں چیزیں جمع کی گئی ہیں یا اس لیے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ اسے دُہرایا جاتا رہے گا، بار بار پڑھا جائے گا جس سے یہ ختم نہیں ہوگی، اسے پڑھایا جائے گا جس سے یہ سینوں سے نہیں مٹے گا یا اس لیے کہ اس کے فائدوں میں وقتاً فوقتاً تجدید ہوتی ہے، اس لیے کہ ان کی کوئی انتہاء نہیں یا اس کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ ’مثناۃ‘، ’ثناء‘ سے ماخوذ ہے، کیوں کہ یہ سورت اللہ کی تعریف پر مشتمل ہے، گویا کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے ذریعے اس کی تعریف کی جاتی ہے اور یا یہ ’الثنايا‘ سے ماخوذ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس امت کے لیے چُنا ہے۔ "والقرآن العظيم" یعنی اس سورت کو قرآن عظیم بھی کہتے ہیں۔ "الذي أوتيته" یعنی جو مجھے دیا گیا ہے۔ اس سورت کو قرآنِ عظیم کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس میں دنیا و آخرت سے متعلق تمام موجودات اور احکام و عقائد کو جمع کیا گیا ہے۔ دیکھیے: دليل الفالحين (6/178-180)۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية