فضل الصلاة
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافقوں پر سب سے بھاری نماز عشا اور فجر کی نماز ہے اوراگر انھیں ان نمازوں کے ثواب کا اندازہ ہو جاتا، تو گھٹنوں کے بل چل کر آتے۔ میرا تو پختہ ارادہ ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور اس اپنے ہم راہ کچھ لوگوں کو لے چلوں، جن کے ساتھ آگ جلانے کی لکڑیوں کے گٹھر ہوں، پھر نماز باجماعت سے پیچھے رہنے والوں کے پاس جاؤں اور ان کے گھروں کو ان کے سمیت نذر آتش کردوں“۔  
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «أَثقَل الصَّلاةِ على المُنَافِقِين: صَلاَة العِشَاء، وصَلاَة الفَجر، وَلَو يَعلَمُون مَا فِيها لَأَتَوهُمَا وَلَو حَبْوُا، وَلَقَد هَمَمتُ أًن آمُرَ بِالصَّلاَةِ فَتُقَام، ثُمَّ آمُر رجلاً فيصلي بالنَّاس، ثُمَّ أَنطَلِق مَعِي بِرِجَال معهُم حُزَمٌ مِن حَطَب إلى قَومٍ لاَ يَشهَدُون الصَّلاَة، فَأُحَرِّقَ عَلَيهِم بُيُوتَهُم بالنَّار».

شرح الحديث :


منافقین کا یہ رویہ تھا کہ وہ لوگوں کو دکھانے اور نام و نمود کے لیے اعمال کیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت ہی کم کرتے تھے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں بتایا ہے۔ ان کی یہ سستی اور کاہلی عشا اور فجر کی نمازوں میں پوری طرح کھل کر ظاہر ہو جاتی ہے؛ کیوں کہ یہ دونوں نمازیں، تاریکی کے اوقات میں ادا ہوتی ہیں۔ اسی بنا پر یہ بے نمازی، نمازیوں کی نظر سے بچ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے بیش تر منافقین کو راحت و آرام اور میٹھی نیند کے وقت پڑھی جانے والی ان دو نمازوں میں ہم کوتاہ عمل پاتے ہیں۔ در حقیقت ان دو نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں چستی و نشاط وہی دکھا پاتے ہیں، جنھیں ایمان باللہ کی حرارت اور آخرت کے اجر و ثواب کی امید، ان نمازوں کی ادائیگی پر آمادہ رکھتی ہے۔ جب بات ایسی ہی ہے، جیسی ذکر کی گئی، تو یہ دونوں نمازیں منافقین پر سب سے گراں اور مشکل ہوجاتی ہی۔ لیکن اگر انھیں اس بات کا علم ہو جائے کہ انھیں مسجد میں باجماعت ادا کرنے کا کس قدر اجر و ثواب ہے، تو وہ ان میں ضرور شریک ہوں گے، چاہے انھیں (معذوری وغیرہ کی بنا پر) رینگتے ہوئے ہی کیوں نہ آنا پڑے، جس طرح بچہ اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل رینگتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے قسم کھاتے ہوئے کہا کہ آپ کا پختہارادہ ہو گیا تھا کہ جماعت کے ساتھ ان دو نمازوں کی ادائیگی میں سستی و کاہلی اختیار کرتے ہوئے پیچھے رہ جانے والوں کو سخت سزا دیں۔ چنانچہ آپ ﷺ کے حکم سے نماز باجماعت قائم کی جائے، پھر کسی شخص کو آپ ﷺ اپنے مقام پر امامت پر مامور فرمادیں اور پھر اپنے ہم راہ کچھ افراد کو لے لیں، جو آگ جلانے کی لکڑیوں کے گٹھر اٹھاکر ان لوگوں کے پاس پہنچیں، جو نماز میں حاضر نہیں ہوئے ہیں اور انھیں ان کے گھروں کے ساتھ نذر آتش کردیں؛ کیوں کہ وہ باجماعت نماز ادا نہ کرنے کے سخت ترین گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اگر گھروں میں عورتیں اوربے گناہ و معصوم بچے نہ ہوتے (تو آپ ایسا ضرور کرتے)، جیسا کہ حدیث کی دیگر سندوں میں اس طرح کے الفاظ وارد ہیں۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية