أذكار الصلاة
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو (بستر سے) گم پایا، پس میں نے تلاش کیا تو (دیکھا) کہ آپ رکوع یا سجدے کی حالت میں یہ فرما رہے ہیں: «سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ»، (اے اللہ! تو پاک ہے اپنی خوبیوں کے ساتھ، تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں) ایک دوسری روایت میں ہے: (تلاش کرتے ہوئے) میرا ہاتھ آپ کے پیروں کے تلوؤں میں جالگا، جب کہ آپ مسجد کے اندر (حالتِ سجدہ میں) تھے اور آپ کے دونوں پیر کھڑے تھے اور آپ یہ دعا پڑھ رہے تھے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ» ’’اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا کے ذریعے سے تیری ناراضی سے اور تیری عافیت کے ذریعے سے تیری سزا سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے ذریعے سےتیرے قہر و غضب سے، میں تیری تعریف کا شمار نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے۔‘‘  
عن عائشة -رضي الله عنها-، قالت: افْتَقَدْتُ النبي -صلى الله عليه وسلم- ذات ليلة، فَتَحَسَّسْتُ، فإذا هو راكع -أو ساجد- يقول: «سُبْحَانَك وبِحَمْدِكَ، لا إله إلا أنت» وفي رواية: فَوَقَعَتْ يَدِي على بَطن قدميه، وهو في المسجد وهما مَنْصُوبَتَانِ، وهو يقول: «اللَّهُمَّ إني أَعُوذ بِرِضَاك من سَخَطِك، وبِمُعَافَاتِكَ من عُقُوبَتِكَ، وأعُوذ بِك مِنْك، لا أُحْصِي ثَناءً عليك أنت كما أَثْنَيْتَ على نفسك».

شرح الحديث :


اس حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا خبر دے رہی ہیں کہ ايك رات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو كو گم پايا یعنی آپ کو بستر پرموجود نہیں پایا، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم كو ڈهونڈنے لگیں، ان کا خیال تھا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس چلے گئے ہیں، پهر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم كو رکوع یا سجدہ کی حالت میں یہ دعا کر تے ہوئے پایا: سُبْحَانَك وبِحَمْدِكَ، لا إله إلا أنت ’’اے اللہ! تو پاک ہے، میں تیری تعریف کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتا ہوں، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘ یعنی میں تجھے پاک مانتا ہوں ان تمام چیزوں سے جو تیرے شایان شان نہیں اور میں تیری تعریف بیان کرتا ہوں تیرے تمام افعال پر پس تو ہر طرح کی حمد و ثنا کا سزاوار ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اور ایک روایت میں ہےکہ: جس دوران وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ڈهونڈنے میں لگی ہوئی تھیں ان کا ہاتھ آپ کے پاؤں کے تلوؤں پر جا پڑا، کیوں کہ وہاں پر روشنی نہیں تھی جس میں وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ سکتیں، وہ صرف ہاتھ سے ٹٹول رہی تھیں یہاں تک کہ ان کا ہاتھ آپ پر پڑا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدے ميں تهے۔ جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو ڈهونڈ لیا تو آپ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا: اللَّهُمَّ إني أَعُوذ بِرِضَاك من سَخَطِك ’’اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا کے ذریعے سے تیری ناراضی سے’’ یعنی اس (رضا) کی طرف اس (ناراضی) سے پناہ میں آتا ہوں، کسی بھی چیز کا علاج اس کی ضد سے کیا جاتا ہے، پس ناراضی کی ضد رضامندی ہے، اس لیے آپ اللہ تعالیٰ کی رضا کے ذریعہ اس کی ناراضی سے پناہ مانگتے۔ ’’وبِمُعَافَاتِكَ من عُقُوبَتِكَ‘‘ (اور تیری عافیت کے ذریعے سے تیری سزا سے) اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری عافیت کے ذریعہ تیری سزا سے۔ "وأعُوذ بِك مِنْك" (اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے ذریعے سے) یعنی میں اللہ سے اللہ عز و جل کی پناہ میں آتا ہوں، اس لیے کہ صرف اور صرف اللہ ہی ملجا و ماویٰ ہے، اللہ کے عذاب سے اللہ عز و جل کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔ "لا أُحْصِي ثَناءً عليك" (میں تیری تعریف کا شمار نہیں کر سکتا) یعنی میں تیری ثنا بيان کرنے میں جتنا بھی مبالغہ کر لوں مگر کما حقہ مکمل تیری ثنا بيان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور سچ تو یہ ہے کہ میں قاصر ہوں کہ میری ثنا تیرے شایانِ شان ہو سکے۔ "أنت كما أَثْنَيْتَ على نفسك" (تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے) یعنی میں تیری وہی ثنا بیان کرتا ہوں جو تو نے خود اپنی ثنا بيان کی ہے، کیوں کہ کسی فرد بشر کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ کی اس سے بہتر ثنا بیان کرسکے جو اس نے خود اپنی ثنا بيان کی ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية