الأخلاق الحميدة
عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر لڑنے والے دو اشخاص کی بلند آوازیں سنی جن میں سے ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ وہ یا تو اسے (قرض میں سے کچھ) معاف کردے یا اس کے ساتھ کچھ نرمی کرے۔ جب کہ دوسرا شخص کہہ رہا تھا کہ اللہ کی قسم میں ایسا نہیں کروں گا۔ پس رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لاۓ اور فرمایا: "کہاں ہے اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والا کہ وہ بھلائی نہیں کرے گا"؟ تو اس نے کہا: "میں ہوں اے اللہ کے رسول"۔ اور (کہا کہ) اِس کے لیے وہی ہے جو یہ پسند کرے۔  
عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- صوت خُصُومٍ بالباب عاليةً أصواتُهما، وإذا أَحدُهما يَسْتَوْضِعُ الآخر وَيَسْتَرْفِقُهُ في شيء، وهو يقول: والله لا أفعل، فخرج عليهما رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «أين المُتَأَلِّي على الله لا يفعل المعروف؟»، فقال: أنا يا رسول الله، فله أي ذلك أحب.

شرح الحديث :


حدیث کا معنی یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر لڑنے والے دو اشخاص کی آوازیں سنی جو کسی مالی تنازعے پر الجھ رہے تھے۔ ان کی آوازیں اتنی بلند ہوئیں کہ ان کی آوازیں نبی ﷺ کے کانوں میں پڑیں جب کہ آپ ﷺ اپنے گھر میں تشریف فرما تھے۔ نبی ﷺ ان کی آوازوں پر متوجہ ہوئے تو ان میں سے ایک شخص کو سنا کہ وہ دوسرے سے مطالبہ کر رہا تھا کہ وہ یا تو اسے (قرض میں سے کچھ) معاف کردے یا اس کے ساتھ کچھ نرمی کرے۔ یعنی وہ کچھ قرض کم کرنے اور اس پر آسانی کرنےکا مطالبہ کر رہا تھا، جب کہ دوسرا شخص کہہ رہا تھا کہ اللہ کی قسم میں ایسا نہیں کروں گا۔ پس رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لاۓ اور فرمایا: "کہاں ہےاس بات پر اللہ کی قسم کھانے والا کہ وہ بھلائی نہیں کرےگا"؟ یعنی كہاں ہے وہ جو اللہ کا قسم کھا رہا ہے کہ نیکی نہیں کروں گا؟ تو اس نے کہا: "میں ہوں اے اللہ کے رسول"۔ اور اِس کے لیے وہی ہے جو یہ پسند کرے۔ یعنی میں ہی ہوں جس نے اللہ کی قسم اٹھائی (لیکن اب میں) اپنے لڑنے والے کو قرض میں سے کچھ معاف کرنے یا اس میں نرمی کرنے میں سے کسی ایک چیز کا اختیار دیتا ہوں جو اسے پسند ہو۔ احمد کی روایت نمبر (244059) اور ابن حبان کی روایت نمبر (5032) میں الفاظ کچھ یوں ہیں: "اگر تم چاہو تو جتنی رقم کم ہے وہ معاف کردیتا ہوں یا اصل رقم میں سے کچھ کم کردیتا ہوں۔ تو اس نے جو رقم کم تھی وہ معاف کردی‘‘۔ اس حدیث کو اس باب میں لانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے دو لڑنے والوں میں صلح کی سعی فرمائی، چاہے وہ (قرض کی کچھ رقم) معاف کردینے سے ہو یا (اس میں) نرمی کے ذریعے۔ اور اسی باب میں اس طرح کا ایک اور قصہ بھی ہے جس کو امام بخاری نے حدیث نمبر (2424) اور امام مسلم نے حدیث نمبر (1558) میں بیان کیا ہے۔ کعب بن مالک سے روایت ہے کہ ان کا عبد اللہ بن أبي حدرد الأسلمي پر کچھ قرض تھا۔ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے قرض کا مطالبہ کیا جو بحث کی صورت اختیار کرگیا اور ان دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں۔ نبی ﷺ ان دونوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: "اے کعب! اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا- گويا وہ کہہ رہے ہوں "آدھا"۔ تو انہوں نے (قرض) کا آدھا حصہ لے لیا اور آدھا چھوڑ دیا۔ پس مسلمان کو چاہیے کہ نیکی کرنے پر حریص ہو اور ایک نیکی یہ بھی ہے کہ لوگوں کے ما بین صلح کرا دی جاۓ۔ پس اگر دو لوگوں، گروہوں یا قبیلوں کے مابین لڑائی جھگڑا اور نفرت دیکھو تو ان کے درمیان صلح کی کوشش کرو تاکہ ہر اس چیز کا خاتمہ ہو سکے جو دوری اور بغض کا باعث ہے۔ اور اس کی جگہ بھائی چارے اور محبت کا راج ہو۔ بے شک اس میں بہت خیر اور خوب ثواب ہے۔ بلکہ یہ عمل دن کو روزہ، رات کو قیام اور صدقہ کرنے سے بھی زیادہ فضیلت کا حامل ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ و خیرات سے بھی افضل عمل نہ بتاؤں"؟ (صحابہ نے عرض کیا) کیوں نہیں اے اللہ کے رسول (ضرور بتائیں)!، تو آپ ﷺ نے فرمایا: (آپس کی ناراضگی میں صلح کرانا)۔ اس حدیث کو امام أبو داود نے روایت کیا ہے۔ حدیث نمبر (4919)۔ اور شیخ البانی نے "صحیح أبي داود" میں اس کو صحیح کہا ہے۔ حدیث نمبر (4919)۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية