العفو
كلمة (عفو) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعول) وتعني الاتصاف بصفة...
ابن مسعود رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’حسد صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔ ایک تو یہ کہ کسی شخص کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اسے اس کو راہ حق میں خرچ کرنے پر لگا دیا ہو اور دوسرا یہ کہ کسی شخص کو اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ساتھ فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو‘‘۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حسد صرف دو صورتوں میں جائز ہے؛ ایک تو یہ کہ کسی آدمی کو اللہ تعالی قرآن سے نوازے اور وہ دن رات اس (کی تلاوت اور تعلیم و تدریس) میں لگا رہے اور دوسرا وہ شخص جس کو اللہ مال عطا کرے اور وہ دن رات اسے (وجوہ خیر میں) خرچ کرتا رہے‘‘۔
اس حدیث میں نبی ﷺاس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ حسد کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ کوئی حسد تو وہ ہوتا ہے جو مذموم اورشرعا حرام ہوتا ہے۔ اس سے مراد وہ حسد ہے جس میں آدمی یہ تمنا کرتا ہے کہ اس کے بھائی سے نعمت چھن جائے۔ ایک حسد وہ ہوتا ہے جو مباح ہے۔ اس سے مراد وہ حسد ہے جس میں آدمی کسی دوسرے کے پاس کوئی دنیاوی نعمت دیکھتا ہے اور تمنا کرتا ہے کہ اسی طرح کی نعمت اسے بھی مل جائے۔ اسی طرح ایک حسد وہ ہوتا ہے جو شرعا قابل تعریف اور مستحب ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کسی اور کے پاس کوئی دینی نعمت دیکھے اور خواہش کرے کہ وہ اسے بھی مل جائے۔ نبی ﷺ کی یہاں آپ ﷺ کے فرمان ''حسد صرف دوصورتوں میں جائز ہے'' میں حسد سے مراد حسد کی یہی قسم ہے۔ یعنی یہ کہ حسد کی مختلف انواع کے اعتبار سے ان کا حکم بھی مخلتف ہوتا ہے اور یہ شرعی طور پر قابل تعریف اور مستحب صرف دو ہی صورتوں میں ہوتا ہے: پہلی صورت: کوئی ایسا شخص ہو جو مالدار بھی ہو اور صاحب تقوی بھی۔ اسے اللہ نے بہت سا حلال مال دیا ہو اور وہ اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرے۔ اسے دیکھ کر آدمی تمنا کرے کہ کاش وہ بھی اس کی طرح کا ہو اور وہ اس نعمت پر اس پر رشک کرے۔ دوسری صورت: کوئی ایسا عالم شخص ہو جسے اللہ نے علم نافع سے نوازا ہو جس پر وہ خود بھی عمل کرتا ہو اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتا ہو اور اس کے ذریعے لوگوں کے مابین فیصلے کرتا ہو۔اسے دیکھ کر آدمی خواہش کرے کہ وہ بھی اس کی طرح کا ہو جائے۔