الأول
(الأوَّل) كلمةٌ تدل على الترتيب، وهو اسمٌ من أسماء الله الحسنى،...
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا، آپ ﷺ کے جسم پرموٹے کنارے والی نجرانی چادرتھی۔ اتنے میں ایک دیہاتی پیچھے سے آیا اور اس نے آپ ﷺ کی چادر کھینچی۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے شانے کو دیکھا کہ اس شخص کے زورسے کھینچنے کی وجہ سے اس پر چادر کے کناروں سے نشان پڑ گئے تھے۔اس نے کہا کہ: اے محمد! اللہ کا جو مال تیرے پاس ہے اس میں سے مجھے دینے کا حکم کرو۔ اس پر آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اورمسکرادیے، پھرآپ ﷺ نے اسے کچھ مال دینے کا حکم دیا۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ ﷺ نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی یعنی ایسا کپڑا جس کے کنارے دھاری دار ہوں۔ (نجراني): نجران کی طرف منسوب جو یمن کا ایک شہر ہے۔ (غليظ الحاشية): یعنی موٹے کنارے والی۔ (فأدركه أعرابي): ایک اعرابی نے پیچھے سے آ کر اسے کھینچا۔ یعنی اعرابی نے آپ ﷺ کی چادر سے پکڑ کر آپ ﷺ کو زور سے کھینچا۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس اعرابی نے اتنے زور سے کھینچا تھا کہ آپ ﷺ مڑ کر اس کے سینے کے سامنے ہو گئے۔ علامہ طیبی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ پوری طرح اس کے سینے کے سامنے ہو گئے۔ حدیث میں جو آتا ہے کہ "آپ ﷺ جب مڑتے تو پوری طرح مڑتے" اس کا یہی معنی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی بے ادبی کی وجہ سے آپ ﷺ کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہ آئی اور اس کا آپ ﷺ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ (حتى نظرت إلى صفحة عاتق رسول الله ﷺ): اس سے مراد شانے کی جگہ ہے۔ (قد أثرت بها): یعنی آپ ﷺ کے شانے پر (زور سے کھینچے کی وجہ سے) چادر کے کنارے سے نشان پڑ گیا۔ میں نے کہا: اللہ نے سچ کہا ہے کہ ’’الأعراب أشد كفرا ونفاقا وأجدر ألا يعلموا حدود ما أنزل الله على رسوله‘‘ [التوبة: 97]. ترجمہ: ’’دیہاتی لوگ کفر اور نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور ان کو ایسا ہونا ہی چاہئے کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں اور اللہ بڑا علم واﻻ بڑی حکمت واﻻ ہے‘‘۔ (اے محمد)! بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مولفۃ القلوب میں سے تھا اسی وجہ سے اس نے ایسا کیا۔ پھر اس نے شفقت و مہربانی کے سمندرکے مقابلے میں درشتگی کے ساتھ آپ ﷺ کو آپ کے نام کے ساتھ پکارتے ہوئے کہا: (مر لي): یعنی اپنے کارندوں کو کہو کہ وہ مجھے مال دیں یا مجھے دینے کا حکم دو۔ (اللہ کے اس مال سے جو تیرے پاس ہے): یعنی جسے دینے میں تیرا کوئی ہاتھ نہیں۔ جیسا کہ ایک اور روایت میں اس کی صراحت ہے کہ اس نے کہا: "نہ اپنے مال سے اور نہ اپنے باپ کے مال سے"۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد زکوٰۃ کا مال تھا جس کا کچھ حصہ آپ ﷺ ان لوگوں پر خرچ کرتے جن کی تالیف قلبی مقصود ہوتی۔ (فالتفت إليه رسول الله - ﷺ)۔ یعنی آپ ﷺ نے تعجب کے ساتھ اسے دیکھا۔ اور پھر آپ ﷺ اظہار شفقت کے طور پر مسکرا دیے اور اسے کچھ مال دینے کا حکم دیا۔