سوال:حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو فرمایا تھا کہ: ( أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ)’’کسی بھی اونچی قبر کو برابر کئے بغیر مت چھوڑنا‘‘ لیکن کچھ جماعتیں اولیائے کرام کے بارے میں غلو کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ : جن قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ کچھ یہودیوں اور عیسائیوں کی قبریں تھیں، اور انہی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ قبر ہی کے اوپر اونچی تعمیرات کرتے ہیں ، جبکہ ہم قبر کے اوپر نہیں بناتے ، بلکہ ہم تو قبر کو چھوتے تک نہیں ہیں، ہم تو صرف قبر کے ارد گرد تعمیر کرتے ہیں، چنانچہ قبر کے اوپر صرف چھت ہی ہوتی ہے، اور یہ حرام نہیں ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی اسی انداز سے بنی ہوئی ہے۔ یہ لوگ اس حدیث کو بھی دلیل بناتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور یمن کیلئے تو دعا فرمائی، لیکن [نجد] کیلئے دعا نہیں فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی گئی: ’’ہمارے نجد کے لئے بھی [دعا فرمائیں]" ۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہاں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا)، اور انکا کہنا ہے کہ اس سینگ سے مراد محمد بن عبد الوہاب نجدی ہیں، جو یہ تمام باتیں لیکر آئے، اور انہیں شرک کہہ دیا، یہ لوگ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیرو کاروں کو رافضی کہتے ہیں، اور یہ بھی تہمت لگاتے ہیں کہ انہوں نے امت کو گمراہ کر کے رکھ دیا، انہی لوگوں نے شرک کا دائرہ اتنا وسیع کیا کہ بہت سی عبادات کو بھی شرک کہہ دیا، اور ان کے مطابق یہ عادت رافضی لوگوں کی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟