العالم
كلمة (عالم) في اللغة اسم فاعل من الفعل (عَلِمَ يَعلَمُ) والعلم...
ابو سعيد خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: "میری کسی بات کو نہ لکھو۔ جس نے مجھ سے قرآن کےعلاوہ کوئی اور بات لکھی ہے وہ اسے مٹا دے، البتہ میری باتیں روایت کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جو شخص میری طرف كوئی جھوٹی بات منسوب کرے گا ـــــــــــ ہمام رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں انہوں نے "جان بوجھ کر" کے الفاظ بھی کہے تھے ــــــــــــــ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے‘‘۔
نبی ﷺ نے (شروع میں) اپنے صحابہ کو اپنی کوئی بھی بات لکھنے سے منع کر دیا اور فرمایا کہ جس نے میری کسی بات کو لکھا ہو وہ اسے مٹا دے۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں اپنی باتوں کو آگے بیان کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی کہ ایسا کرنے میں ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ آپ ﷺ سے جس بات کو بھی نقل کریں اس میں سچائی کو پیش نظر رکھیں۔ آپ ﷺ نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ جو شخص بھی آپ ﷺ کی طرف جان بوجھ کر کوئی جھوٹی بات منسوب کرے گا اس کی جزا جہنم کی آگ ہو گی۔ حدیث کو لکھنے کی ممانعت منسوخ ہو چکی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اس سے شروع شروع میں منع فرمایا تھا۔ کیونکہ احادیث بہت زیادہ ہو گئیں اور ہو سکتا تھا کہ حافظہ کچھ باتوں کو محفوظ نہ رکھ سکے چنانچہ آپ ﷺ نے لکھنے کی اجازت دے دی۔ آپ ﷺ نے اپنے خطبہ (حجۃ الوادع) میں فرمایا کے لیے "ابو شاہ کو لکھ کر دے دو"۔ آپ ﷺ نے ایسا اس وقت فرمایا جب ابو شاہ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے (خطبہ میں بیان کردہ احکام کو) لکھ کر دینے کی درخواست کی تھی۔ آپ ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو لکھنے کی اجازت دی۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو تبلیغ کا حکم دیا ہے۔ جب لکھا نہیں جائے گا تو اس سے علم ضائع ہو جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ممانعت کا تعلق محض اس صورت کے ساتھ خاص ہے جب حدیث کو قرآن کے ساتھ ایک ہی صحیفہ میں لکھا جائے تا کہ اس کی قرآن کے ساتھ آمیزش نہ ہو جائے اور یوں قاری اشتباہ میں پڑ جائے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ممانعت صرف نزولِ قرآن کے وقت کے ساتھ خاص تھی اس اندیشے کے تحت کہ کہیں قرآن کا کسی اور شے کے ساتھ التباس نہ ہو جائے۔ بعدازاں رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ پہلا احتمال یعنی اس ممانعت کا منسوخ ہونا ہی زیادہ راجح ہے۔