الوتر
كلمة (الوِتر) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل، ومعناها الفرد،...
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کی ایک جماعت نبی کریم ﷺ کے دروازے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ کچھ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے نہیں فرمایا؟اور بعض کہتے کہ ایسے ایسے نہیں فرمایا؟رسول اللہ ﷺ نے جب یہ باتیں سنیں تو باہر نکلے اور ایسے لگ رہا تھا جیسے آپ ﷺ کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑے ہوئے ہیں۔ فرمایا: تمہیں یہ حکم دیا گیا ہے؟ یا تمہیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ کتاب اللہ کے کچھ کو کچھ اور کر کے بیان کرو؟ تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے گمراہ ہوئی تھیں۔ تم اس لیے نہیں ہو کہ یہاں کیا ہے وہاں کیا ہے (اِس میں پڑے رہو)، تمہیں جو حکم دیا گیا ہے اسے دیکھو اور اس پر عمل کرو اور جس سے منع کیا گیا ہے اس رک جاؤ۔‘‘
صحابہ کی ایک جماعت نبی کریم ﷺ کے دروازے کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ ان کا کسی مسئلہ میں اختلاف ہو گیا اور بعض روایات کے مطابق ان کا تقدیر کے کسی مسئلہ پر اختلاف ہوگیا۔ بعض نے اپنے قول پر کتاب اللہ کی آیت کو بطور استدلال پیش کیا اور دوسروں نے اپنے استدلال پر کتاب اللہ کی آیت کو پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ سنا تو غصے کی حالت میں باہر نکلے اور آپ ﷺ کا چہرۂانور غصے سے سرخ تھا مانو آپ ﷺ کے چہرے پر انار کے دانوں کا جوس نچوڑا دیا گیا ہو۔ آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ یہ اختلاف، جھگڑا اور قرآن میں تنازع اور قرآن کے بعض کو بعض سے متنازع کرنا، کیا تمہاری تخلیق کا مقصد یہی ہے؟یا اس کا اللہ نے حکم دیا ہے؟ ان کی مراد یہ تھی کہ ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ ان کو بتایا کہ سابقہ امتوں کی گمراہی کا سبب بھی اسی طرح کے معاملات تھے۔ پھر ان کی اس طرف رہنمائی فرمائی جس میں ان کی اصلاح اور فائدہ ہے۔ فرمایا کہ جو اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے وہ کرو اور جس سے روکا ہے اس سے باز آ جاؤ۔ یہ کام ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا اور جس میں تمہارے لیے فائدہ اور اصلاح ہے۔